• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روحابہ احمد

ہر معاشرے کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔یہی بنیاد اس کی شناخت بھی ہوتی ہے۔ معاشرے کی اقدار و تہذیب اس کے نظریے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اگر ابتدا ہی میں ہی غفلت برتی جائے تو ایسی بنیاد پر بنی عمارت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔غفلت اور لاپروائی ہی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ آج گھر ،خاندان ،تعلیمی اداروں، ذرایع ابلاغ ،ہماری قومی ترجیحات اور نظریات کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ اگر ہمیں نسلِ نو کی مستحکم بنیاد تعمیر کرنی ہے تو اپنی اقدار اور معاشرت کی طرف پلٹنا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہماری تہذیب واقدار کو بدل رہے ہیں، کس طرح انہیں روکا جاسکتاہے اور بہ حیثیت عورت معاشرے کو پروان چڑھانے میں ہمارا کیا کردار ہے؟ دراصل ہماری اقدار کی تبدیلی میں زیادہ عمل دخل قوانین کے نفاذ اور ان پر عمل در آمدکاہے۔ حقیقتاً ہمارے ہاں قوانین پر عمل نہیں ہورہا۔ ملک میں خواتین سے متعلق بھی کئی قوانین موجود ہیں۔ اگر ہم اپنی خواتین کو اس کا شعور دیں تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ وہ صرف اپنے اردگرد کے لوگوں کو شعور دیں اور قوانین کی آگاہی فراہم کر کے ا س کے لیے آواز اٹھائیں تو بہت سی مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

بچّوں کی شخصیت پر گھر کے ماحول کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسکول میں بچّوں کو ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ پہلے چار برس یا اس سے زاید عمر کے بچّوں کو اسکول میں داخل کرایا جاتا تھا، لیکن اب تو مائیں دوسال کے بچّوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ حالاں کہ یہ ایسا بہترین وقت ہوتا ہے جب ماں کی گود، دادی کی شفقت اور بہن بھائی کا پیار ہی سب سے بڑا اسکول ہوتا ہے، جس کا نعم البدل کچھ بھی نہیں۔

لہٰذا ادارے بعد میں ہیں، پہلے اپنے گھر سے ابتداء کریں۔ اپنے ایک ایک عمل پر توجّہ دیں۔ بچے اخلاقیات گھرہی سے سیکھتے ہیں۔ اچھائی اور برا ئی تو ہر دور میں رہی۔ جہاں بچّوں کواچھی اور مثبت باتیں سکھائی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ وہاں معاشرے میں اچھائی اور مثبت طرزِ فکر غالب نظر آتی ہے۔

جب مائیں ہی اچھی باتوں اور مثبت طرزِ فکرسے آگاہ نہ ہوں تو وہ بچّوں کوان سے کیا روشناس کرائیں گی؟ چناں چہ آج صورت حال یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف برائیاں بکھری ہوئی ہیں۔ خاندان متاثر ہورہا ہے اور مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے۔ وہ عورت جس نے اپنے گھر کی خاطر سمجھوتے کیے، صبر اور برداشت سے کام لیا اور قربانیاں دیں، لیکن زندگی کی اعلٰی اقدار کی حفا ظت کی معاشر ے نے ا سی عورت کو عزت نہیں دی اور اس کو مخلصانہ کوششوں اور قربانیوں کوسراہا نہیں گیا۔

پھر اس عورت نے اپنی بیٹی اور نئی نسل میں یہ قدریں منتقل نہیں کیں۔ چناں چہ وہ قدریں افسانوں اور خوابوں کے کردار بن کر رہ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادّیت نے ہماری اخلاقی اقدار کو بُری طرح پامال کردیا۔ معاشرے میں صرف ماں اور بچّے کا تعلق ہی اوّلیت نہیں رکھتا بلکہ بچّے کی شخصیت کی تعمیر میں باپ اور دیگر قریبی رشتے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے درمیانی طبقے میں خاندانی نظام آج بھی کسی حد تک موثر ہے اوراچھی اقدارآج بھی وہاں نظرآجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ سارا معاشرہ خرابی کی طرف جارہا ہے، درست نہیں۔

آج کا نوجوان ارد گردکے حالات ووا قعات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔والدین، خصوصاً مائیں ،بچّوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا پہلے انہیں خود مثال بننا ہوگا۔ ایک دوسرے سے رابطہ بہت ضروری ہے۔یاد رکھیے کہ آج کے دور میں والدین کو بچّوں کی اچھی تربیت کا فریضہ بہت نظم وضبط کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔آج کے دور میں پلاننگ اور کمیونی کیشن کا بہت اہم کردار ہے۔

اس میں شک نہیں کہ معاشرہ تیز ی سے بدل رہا ہے، مادیت پر ستی بڑھتی جارہی ہے اور ضروریات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بڑوں کی عزت کرنے،ہر حال میں سچ بولنے، اور چھوٹوں سے پیار کرنے پر ہمارے مذہب نے بہت زور دیا ہے۔ جب والدین خو د ان نکات پرعمل کریں گے تب ہی اولاد بھی ان پر عمل پیرا ہوگی۔رزقِ حلال بچوں کی تربیت میں بہت معاون ہوتا ہے۔ ہمیں بچوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اچھے اور برے کی پہچان لازماً بتانا ہوگی۔ ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہی ہم خود کو اچھے والدین ثابت کرسکتے ہیں اور اچھا اور برائیوں سے پاک معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔