اسلام آباد (تجزیاتی رپورٹ:حنیف خالد) گوادر انٹرنیشنل پورٹ جو چار سال سے سابق حکومت کی غفلت لاپرواہی کا شکار رہی کو سی پیک کے اہم پراجیکٹ جو چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹیو کا اہم جزو ہے پی ڈی ایم حکومت نے ری ویمپ (Revamp)کردیا ہے۔ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پی ٹی آئی کے دور میں کم وبیش بند رہا لیکن عمران خان کے اقتدار سے رخصتی کے بعد موجودہ حکومت نے اسے دن رات ایک کرکے فعال بنایا اور 2022کی دوسری ششماہی میں پورٹ کو کھاد، درآمدی گندم لانے والے بحری جہازوں کیلئے کھول دیا جس سے گندم اور کھاد لانے والے کارگو جہازوں کا مال فوری ان لوڈہو کر پنجاب، کے پی جانا شروع ہو گیا۔40 ارب ڈالر مالیاتی سی پیک کے اہم ترین گوادر پورٹ پراجیکٹ کے مال بردار کمرشل بحری جہازوں کی روانگی کا افتتاح نومبر 2016 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم نواز شریف نے شروع کرایا تھا ۔عوامی جمہوریہ چین کے جنوبی صوبے کاشغر سے اڑھائی سو جمبو سائز کے برآمدی مال سے بھرے کنٹینر پر مشتمل تجارتی کاروان شاہراہ قراقرم کے راستے 30 اکتوبر کو روانہ ہوا اور سی پیک کے روٹ سے ہوتا ہوا پاکستان آرمی کے خصوصی سکیورٹی ڈویژن کے زیر حفاظت 2016 کے دوسرے ہفتے میں گوادر پورٹ پہنچا تھا۔ اس روٹ سے پہلے چین کی برآمدات کے جہاز انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان واقع ڈیڑھ دو میل چوڑی آبنائے ملاکا کے راستے بحرہند بحرعرب سے ہوتے ہوئے مشرق وسطیٰ براعظم افریقہ جایا کرتے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی گوادر انٹرنیشنل پورٹ کو زیر استعمال لانے کا فیصلہ کیا جو چار سال سے استعمال نہیں ہو رہی تھی۔ ان چار سال میں ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ کی طرف آنے والے مال بردار بحری جہازوں کے لنگرانداز ہونے کیلئے قدرتی گہرائی کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے جہازوں کے لنگرانداز ہونے میں دشواریاں آسکتی تھیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے اوپن انٹرنیشنل ٹینڈر کے ذریعے چائنہ ہاربر انجینئرنگ کمپنی کو ڈی سیلٹنگ کا ٹھیکہ دے دیا اور انہوں نے قدرتی اور جھیل کی انٹرنیشنل گہرائی ساڑھے 14 میٹر کرنے کا پراجیکٹ دیا جس کی لاگت 4 ارب 7 کروڑ روپے طے ہوئی۔گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور چائنہ ہاربر کمپنی کے درمیان ڈی سلٹنگ کا معاہدہ ہوا جس پر تیزی سے ڈریجنگ (Dredging ) جدید ترین مشینری سے کر رہی ہے ۔یہ ڈریجنگ پراجیکٹ کرنے والی چینی کمپنی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو یورپ خلیجی ریاستوں ایشیا افریقہ کی بندرگاہوں پر عرصے کام کر رہی ہے۔ گوادر پورٹ کے ڈریجنگ کا کام ایک سال میں مکمل کر لیا جائے گا جبکہ گوادر پورٹ پر جدید ترین مال اتارنے اور لوڈ کرنے والی کرینیں جو ابھی تک 602 میٹر لمبے پلیٹ فارم پر نصب ہیں کی تنصیب وزیراعظم شہباز شریف 15 سو میٹر لمبے پلیٹ فارم پر کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ گوادر پورٹ جو پی ٹی آئی کے دور میں استعمال ہی نہیں کی گئی کیونکہ سی پیک کو عملی طور پر سست روی کا شکار کیا گیا مگر پی ڈی ایم کی حکومت میں سی پیک کے منصوبوں کی رفتار تیز کردی گئی ہے۔ اس کے بعد وزیراعظم ایران سے سو میگاواٹ بجلی لینے کا جو معاہدہ کیا تھا پاکستانی بجلی کمپنی پاکستان ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیویشن نے ایران سے بجلی حاصل کرنے کیلئے کم وبیش 30 کلومیٹر طویل بجلی کی ٹرانسمیشن لائن وقت سے پہلے مکمل کردی اور ہفتہ رواں میں ہمسایہ دوست اور اسلامی اخوت کے علمبردار ملک نے نہ صرف گوادر پورٹ بلکہ پورے گوادر شہر گوادر انٹرنیشنل پورٹ کی بجلی کی تمام ضروریات پوری کردی ہیں۔ گوادر پورٹ کا رن وے پاکستان نے چینی کمپنی سے تیار کرالیا ہے جو کراچی لاہور اسلام آباد اور دوسرے انٹرنیشنل ائیرپورٹس کے رن وے سے زیادہ طویل ہے اور اس پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے 830 بھی آسانی سے اتر سکیں گے۔ افتتاحی تقریب میں پاکستان اور چین کی اہم شخصیات مدعو کی جائیں گی۔