اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) پنجاب، خیبر پختونخوا الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 روز میں کرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےگزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، چیف جسٹس نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے صدر خیبر پختونخوا میں اور گورنر پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دیں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے، اکثریتی فیصلے میں صدرمملکت کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے، کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے 20فروری کے اعلان کو خیبر پختونخوا کی حد تک کالعدم کردیا گیاہے، جبکہ صوبہ پنجاب کی حد تک صدر کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے قراردیاہے کہ اگر9 اپریل کوپنجاب میںانتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے تومشاورت سے تاریخ بدلی جاسکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ معاملہ ہائیکورٹس میں تھا،از خود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا، درخواستیں مسترد کرتے ہیں، ایسے تمام معاملات کو حل کرنا پارلیمان کا اختیار ہے،جسٹس منصور علی شاہ اورجسٹس جمال مندوخیل نے مزید لکھا کہ بینظیر بھٹو اور منظور الٰہی کیس کے مطابق بھی ازخود نوٹس نہیں بنتا،جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔ بدھ کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کھلی عدالت میں 13صفحات پر مشتمل فیصلے کے آپریٹیوپارٹ پڑھ کرسنائے ، پانچ رکنی بینچ نے تین دوکے تناسب سے جاری اکثریتی فیصلے میںاسپیکر ہائے پنجاب و خیبر پختونخواء اسمبلی اوراسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستیں اور ازخود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگرصوبائی اسمبلیاں قبل ازوقت تحلیل ہو جائیںتو عام انتخابات کی تاریخ دینا گور نر اور صدر کی آئینی ذمہ داری ہے جبکہ بنچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی سے اختلاف کرتے ہوئے آئینی درخواستوں کو ناقابل سماعت اور از خود نوٹس کو بلا جواز قراردیتے ہوئے مسترد کردیاہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے اکثریتی فیصلے میں قراردیا ہے کہ اگر گورنر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرے ؟ تو اس صورتحال میں آئینی طور پر گور نر الیکشن کمیشن کے مشورے سے عام انتخابات کی تاریخ دینے کاپابند ہے جبکہ اگر گورنر وزیر اعلی کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو اس صورتحال میں الیکشن ایکٹ صدرمملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے اور صدرمملکت الیکشن کمیشن کے مشورے سے انتخابات کی تاریخ دیں گے، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ گورنرخیبر پختونخوا نے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ نہ دے کراپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے،فاضل عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میںگورنرخیبر پختونخوا اپنے صوبہ میں الیکشن کمیشن کی مشاورت سے انتخابات کے انعقاد کی حتمی تاریخ دینے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، اکثریتی فیصلے میں صدرمملکت کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے، کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے 20فروری کے اعلان کو خیبر پخٹونخواء کی حد تک کالعدم کردیا گیاہے،عدالت نے قراردیا ہے کہ،چونکہ کے پی کے اسمبلی گورنر کے دستخطوں سے تحلیل ہوئی ہے ، اس لیے عام انتخابات کی تاریخ بھی گورنر ہی دیں گے، جبکہ عدالت نے صوبہ پنجاب کی حد تک صدر کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن صدرمملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویزکرے، عدالت نے قرار دیاہے کہ اگر9 اپریل کوپنجاب میںانتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے تومشاورت سے تاریخ بدلی جاسکتی ہے، اکثریتی فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ پا رلیمانی جمہوریت پاکستان کے آئین کے بنیادی خد وخال میں شامل ہے، لیکن پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہے جبکہ انتخابات کے بغیر اسمبلیوں کا تصور ممکن نہیں ہ ے ،اکثریتی فیصلے میں انتخابات کو وفاقی سبجیکٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتخابات کے لیے وسائل اور ماحول فراہم کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے،عدالت نے وفاقی اور صوبائی اداروں کوا نتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کر نے کی ہدایت بھی کی ہے،اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تین ججوں کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ زیر غور معاملہ آئین کے آرٹیکل 184/3 پر پورا نہیں اترتا ہے ، جس بنیاد پر یہ از خود نوٹس لیا گیاہے ، اس میں ابہام ہے، دونوں فاضل ججوں نے جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے 23فروری کے الگ نوٹ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت یہ مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں ہے،فاضل ججوںنے اختلافی نوٹ میں قراردیاہے کہ عدالت کو ایسے معاملات میں آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے اختیار کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، فاضل ججوںنے قراردیاہے کہ انتخابات کے حوالے سے آئینی درخواستوں پرلاہور ہائی کورٹ پہلے ہی اپنافیصلہ دے چکی ہے،جبکہ اس کے خلاف معاملہ ڈویژن بنچ میں زیر التواء ہے ،فاضل ججوںنے قراردیاہے کہ ،لاہور ہائی کورٹ کے مقدمہ کے کسی فریق نے بھی اس کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا ہے ،اس لئے سپریم کورٹ،کسی بھی ہائی کورٹ میں زیر التواء معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی ہے ،فاضل ججوںنے مزید قرار دیاہے کہ ہائی کورٹوں میں معاملہ زیر سماعت لانے میں کوئی غیر ضروری تاخیر نہیں ہوئی ،پشاور اور لاہور ہائی کورٹ نے 3 دنوں میں انتخابات سے متعلق درخواستیں نمٹائی ہیں،فاضل ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میںمنظور الٰہی اور بینظیربھٹو کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیر غور درخواستوں پر آئین کے آرٹیکل 184/3کا دائرہ اختیار استعمال کرنا،سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں کے خلاف ہے،فاضل ججوںنے قراردیاہے کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے اختیار کے استعمال کا موزوں کیس نہیں ہے،یہ معاملہ پہلے سے ہی دوہائی کورٹوں میں زیرسماعت ہے ،اس لئے آرٹیکل 184/3کا اختیار استعمال کرنیکا کوئی جواز موجود نہیںہے ، لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بینچ پہلے ہی درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دے چکا ہے جبکہ سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل ڈویژن بینچ میں زیر التواء ہے،فاضل ججوںنے قراردیاہے کہ یہ عدالت (سپریم کورٹ)صوبائی ہائی کورٹوں کی آئینی حدود میں ازخود مداخلت نہیں کرسکتی ہے ، ہائی کورٹوں کی آئینی حدود میں مداخلت آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اور صوبائی آئینی عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہے،فاضل ججوںنے قرار دیاہے کہ آئینی صوبائی عدالتوں کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کرنا چاہیے،دونوںفاضل ججوں نے اپنے اقلیتی فیصلے میں دونوں ہائی کورٹوں کو پنجاب اور کے پی کے،میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق زیر التوا ء مقدمات کو تین دنوں کے اندر اندر نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ سپریم کورٹ کی حالیہ کارروائی ہائی کورٹوں میں جاری کارروائی میں رکاوٹ کا سبب بنی ہے ،فاضل ججوںنے اپنے اقلیتی فیصلے میں یہ بھی قراردیاہے کہ پارلیمنٹ کو ہی یہ تنازعہ حل کرنا چاہیے۔