• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسامہ

آج سے کئی سو سال پہلے چوہوں کا ایک خاندان چھوٹے سے بل میں رہائش پذیر تھا۔ دن کی روشنی میں چوہے اپنے بل سے نہیں نکل سکتے تھے اور نہ ہی خوراک تلاش کرسکتے تھے، سو سارادن انہیں بھوکا رہنا پڑتا ۔وجہ یہ تھی کہ بلی نہایت آسانی سے انہیں دیکھ لیتی اور شکارکر لیتی تھی ۔ چوہے رات کو بھی نکلتے تو جب بھی چھپ چھپا کر نکلتے۔ 

بلی کا خوف ان کے سرپر تلوار کی طرح لٹکتا رہتا۔ وہ کتنی بھی احتیاط کیوں نہ برتے، بلی ایسے دبے پاؤں آتی کہ انہیں خبر تک نہ ہوتی اور ان کا ایک ساتھی بلی کے لنچ یا ڈنر کی نذر ہوجاتا۔ ایک لمبے عرصے تک وہ خوف کے عالم میں جیتے رہے، ہرروز ان کے ساتھی بلی کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ آخر ایک رات بوڑھے چوہے نے اجلاس بلوایا، جس میں ہر چھوٹا بڑا چوہا شریک ہوا۔

بوڑھے چوہے نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ”میرے ساتھیو! یہ ڈر ڈر کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟ یہ کیسی زندگی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے دشمن کے پیٹ کا ایندھن بنتے رہیں اور ہم چپ چاپ سہتے جائیں“۔ 

بوڑھے چوہے کی آواز بلند ہوتی گئی۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دیگر چوہوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے مکاّ ہو ا میں لہرایا اور کہا۔ ”آخر کوئی حد ہوتی ہے ظلم سہنے کی بھی سوچو، میرے ساتھیو، کوئی ترکیب سوچو، اس عذاب سے نجات پانے کی ، آزاد زندگی گزارنے کی۔‘‘

بوڑھا چوہا خاموش ہوا تو سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ آخر ایک چوہا زور سے اچھلا اور بولا۔ ” وہ مارا،ایسی ترکیب سوچی ہے کہ بس“۔ سارے چوہے یک زبان ہوکر بولے۔ ”وہ کیا ؟“ چوہا کھنکارا، پھر اپنی گردن سہلاتے ہوئے گویا ہوا۔” ہم ایک گھنٹی بلی کی گردن میں باندھ دیں گے، تو جب وہ آئے گی تو گھنٹی بجے گی اور ہمیں پتا چل جایا کرے گا اور ہم بھاگ جائیں گے۔“ سب چوہے خوشی سے تالیاں بجانےلگے۔

”واہ بھئی واہ! کیا عمدہ ترکیب ہے۔آپ بڑے ہیں، آپ ہی بلی کی گردن میں گھنٹی باندھیے۔“ چوہا تیار ہوگیا۔ جب بلی کے آنے کا وقت ہوا تو گھنٹی لے کر بل کے باہر کھڑا ہوگیا۔ بلی قریب آئی، چوہے کے تو چھکے چھوٹ گئے، پاؤں کپکپائے، ہاتھ تھرتھرائے، گھنٹی ہاتھ سے چھوٹ گئی،وہ دوڑتا ہوابل میں داخل ہوگیا بلی تو شکار کو بچتا دیکھ کر واپس ہولی، مگر چوہے بہادر کا بُرا حال ہوا۔ سب چوہے اس کے اردگرد کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے تھے کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا، کوئی سیٹیاں بجارہا تھا، ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا۔’’ بڑا آیا گھنٹی باندھنے والا۔‘‘ اگلی رات تمام چوہے پھر سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ 

اس بار ایک بوڑھے چوہے نے ترکیب بتائی۔ میرے دوستو ، اتفاق میں برکت ہے ناں، اس لیے جیسے ہی بلی آئے گی ، ہم سب اس پر اکھٹے حملہ کردیں گے، خوب خوب ماریں گے، ایسا کرنے سے بلی پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی اور دوبارہ ہمیں شکار کرنے کی جرأت نہ کرسکے گی۔“ سارے چوہے خوش ہوگئے اور بلی کاانتظار کرنے لگے۔ جوں ہی بلی آئی سب نے حملہ کردیا کوئی ٹانگ سے چمٹ کر کاٹنے لگا کوئی دُم سے، کوئی پیٹھ پر بلی نے جو زور لگایا دم جھاڑی پیر جو پٹخا تو ایک چوہا دور جاگرا، دوسرے کا کچومر نکل گیا۔باقی چوہوں نے جو حال دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی، سب بل کی طرف بھاگے۔ بلی نے اطمینان سے ایک تگڑاچوہا دبوچا اور چلتی بنی۔

سب چوہے ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے، بزدل اور ڈرپوک کے القابات سے نوازتے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ سوچنے لگے۔ ایک ننھا سا چوہا بول اٹھا۔ مجھے ایک بہت اچھی ترکیب سوجھی ہے، وہ یہ کہ زمین پر گوند پھیلا دی جائے، اور اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ بلی جب گوشت کا ٹکڑا لینے آئے گی تو اس کے پاؤں گوندکی وجہ سے چپک جائیں گے، پھر وہ ہلنے جلنے سے قاصر ہوجائے گی، اور یوں ہم گھنٹی اس کی گردن میں باندھ دیں گے۔“ اب چوہے خوشی خوشی گوند زمین پر پھیلائے ، گھنٹی ہاتھ میں پکڑے بلی کا انتظار کرنے لگے۔ بلی آئی ، سرخ گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دیکھ کر اس کی باچھیںکھل گئیں، جھٹ سے اس پر لپکی لیکن یہ کیا، اس کے پاؤں تو گوند کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔

جیسے جیسے نکلنے کی کوشش کرتی، ویسے ویسے اس کا جسم مزید گوند میں لتھڑتا جاتا۔ چوہوں نے جو یہ ماجرا دیکھا تو نعرہٴ مستانہ بلند کیا۔ ننھا چوہا لپک کر بلی کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کی گردن میں گھنٹی باندھ دی۔ دیر تک چوہے ننھے کے حق میں نعرے لگاتے رہے اور نجات کا جشن مناتے رہے اور بلی کا مذاق اڑاتے رہے اور اسی وقت سے چوہے بلی سے نہیں ڈرتے۔ انہیں بلی کے آنے کا دور سے پتا چل جاتا ہے کیوں کہ اس کی گردن میں بندھی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ فوراََ ہی اپنے بل میں چھپ جاتے ہیں۔