• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عمار

پاکستان کوروشن و خوشحال بنانا ہے تو یہ جان لیجئے کہ مستقبل اس وقت محفوظ ہوگا جب نوجوان نسل کی کردار سازی کو تعمیر و ترقی کے ساتھ وابستہ کیا جائے گا۔ درس گاہوں میں جتنے بھی نصاب پڑھا لیں اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کی تعلیم دئیے بغیر نصب العین پورا نہیں ہوگا۔ اسلام انسانیت اور معاشرہ میں نظم وضبط کا پیامبر ہے اور اسی اصول کا درس گاہوں میں اطلاق ہونا چاہئے۔ 

اس سے رواداری بڑھے گی اور ماحول تشدد سے پاک ہو گا۔نسلِ نوکی بہترین تربیت کے ذریعے ہی ہم معاشرتی نظم و نسق، امن، برداشت اور بھائی چارہ کی فضا کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل ہی ہمارا قیمتی مستقبل ہے، لہذا معاشرتی اقدار کی تکمیل و وسعت کے لیے ہمیں اسلام کی اعلیٰ روایات کا احیاء کرنے کی ضرورت ہے، لہذانوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ اپنے علم کی وسعت کی خاطر مطالعہ کو اپنا شعار بناتے ہوئے غور و تفکر کی راہ اپنائیں۔

درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں، اگر ان جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ نقصان دہ ہے۔ سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے، جس کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق جس ادارے سے بھی تعلیم حاصل کریں، آپ کا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو، اس لئے وقت ضایع نہ کریں، زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں، ایسا علم جو آپکو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بنائے اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو، اگر آپ میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنےکی بہترین استعداد ہو گی ،تو اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔

اس کے ساتھ ایک باخبر انسان بنیں، اپنی تاریخ سے بھی باخبر اور مستقبل میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے، اس سے بھی باخبر، آپ ہی وہ نسل ہیں جنھیں آگے جا کر ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے، اس لئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے بڑوں سے کیا غلطیاں سر زد ہوئیں ، جنھیں آپ نے نہیں دھرانا اور بہتر مستقبل کے لئے وسائل اور ایجادات کا کیسے استعمال کرنا ہے، کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیے، اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجئے، انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پر استفادہ کیجئے۔ 

اپنے اردگرد رہنے والوں اوران کے مسائل سے بھی باخبر رہیں تاکہ ایک دن جب آپ ایک ڈاکٹر، جج، وکیل، صحافی، استاد یا کسی بھی پیشے کو اپنا کر عملی زندگی میں قدم رکھیں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سےبا لا تر ہو کر ان ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بنیں جو ہوتی رہتی ہیں۔ 

اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر بھی ، اخلاق ایسا ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں۔ طالب علم اور دوست کی حیثیت سے اپنے تعلیمی ادارے اور اپنے محلّے کے افراد کے ساتھ معاملات میں آپ کی ذات لوگوں کے لئے سکون اور خوشی کا باعث ہو، آپ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ کہ ان کو بڑھاوا دینے والے، اگر ہم میں سے ہر شخص اور خاص طور پہ آپ نوجوان اگر اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کردیں تو کچھ وقت تو ضرور لگے گا، لیکن یہ بےسکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی۔ آپ ہی اپنے ملک و قوم کی شناخت ہیں۔ اپنے بزرگوں کی امید ہیں اور اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ بھی۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اسی احساس کے ساتھ گزاریے۔