• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انعام اللہ

آج کے بیش تر نوجوان دیارِغیر میں نوکری کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں جاکر مٹی کو ہاتھ میں لیں گے،تو سونا بن جائے گی۔ وہاں راتوں رات ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے، حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اپنے ملک سے باہر جاکر وہ ایسے ایسے کام کرتے ہیں ، جو یہاں کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ محنت میں عظمت ہے، جب بیرونِ ملک جا کر محنت کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں کیوں نہیں۔ 

آج آپ کو ایک ایسی شخصیت سے متعارف کروارہے ہیں، جس نے اپنے وطن میں کپڑے کے مختلف فیکٹریوں میں مزدوری کی، اس کام میں کا تعلیم اور خاندان رکاوٹ نہ بن سکا۔ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ کامیاب ہونا ممکن ہے۔یہ شخصیت ہے منیر بھٹی کی منیر بھٹی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ غربت کے باوجود پڑھتے پڑھتے تھرڈ ائیر تک پہنچ گئے۔ ایک دن کالج میں سیڑھیوں پر بیٹھے، سر گھٹنوں پر رکھے سوچنے لگے کہ میرا مستقبل کیا ہے؟ کیا تا حیات غربت ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہے آخر میرے پـڑھنے کا کیا فائدہ ہے؟

اس سوال نے ان کی زندگی کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔ایک دن کالج سے گھر جانے کے بجائے بازار گئے۔ جیب میں تین سو روپے تھے،یہی ان کا کل سرمایہ تھے۔ راستے میں ایک پرنٹنگ پریس نظر آیا تو کچھ سوچتے ہوئے اس سے خیالی کمپنی کا لیٹر پیڈ بنوایا۔ فرم کا نام پاکستان ایکسپورٹ کمپنی رکھا، کمپنی کی مہر بنوائی۔ اب وہ سوچ رہے تھے کہ میں ایک اسٹوڈنٹ سے ایک کمپنی کا مالک بن چکاہوں، حالانکہ کمپنی کا وجود تک نہیں تھا۔ گھر میں داخل ہوئے تو خوشی کے آثار نظر آرہے تھے۔ ماں نے دیکھا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکی ’’بیٹا، آج اتنے خوش کیوں ہو‘‘۔ 

انہوں نے بھی مزے لے لے کر بتایا کہ اب وہ ایک کمپنی کا مالک ہے۔ ماں نے پوری بات سن کر خوب خبر لی، لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹ گئے۔ پاس سرمایہ تو تھا نہیں، اب سوال یہ تھا کہ کاروبار اور کمپنی کو کیسے چلایا جائے، یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اس موقع پر منیر گھبرانے کے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

ایسا خوب جو انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا یعنی نوکری کرنے کے بجائے نوکری دینے والے کا خواب اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئے انہیں دن رات محنت کرنا پڑی۔ منیر بھٹی کی زندگی کی داستان کو اگر کامیاب انسان کی کہانی کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ اندرون شہر لاہور سے زندگی کا سفر شروع کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ مضبوط بیک گراؤنڈکے بغیر بھی کاروباری کامیابی ممکن ہے۔ منیر کے چند عزیز کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ رشتہ داروں کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھا۔ کسی نے سہارابننے کی کوشش نہ کی۔ اب ان کی طرف مزید دیکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے ہمت ہارنے کے بجائے قدم آگے بڑھائےاور فیصل آباد کا رخ کیا، جہاں مختلف کپڑے کی فیکٹریوں میں محنت مزدوری کی۔ 

انہوں نے پیسہ کمانے کے بجائے ہنر سیکھنے کو ترجیح دی۔ کپڑے کی مختلف ملوں میں کام کیا۔ اس دوران کپڑے کے کاروبار کی اونچ نیچ کا پتا بھی چلنے لگا۔ جب ان کے علم یہ بات آئی کہ اس کام میں ادھار چلتا ہےاور کسی سے ادھار لینے کے لیے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے لیے جان پہچان ہونی چاہیے۔ جب اعتماد اور بھروسہ آپ پر کیا جانے لگے، تو آگے بڑھنےکے دروازے کھل جاتے ہیں۔ 

انہوں نے اعتمادسے کام شروع کردیا ۔ ادھار پر تھوڑا سامال خریدکر بیچ دیتے اور بیوپاری کو بر وقت ادائیگی کر دیتے۔ ان پر آہستہ آہستہ اعتماد کیا جانے لگا۔ پہلے خریدی ہوئی قیمت پر بیچا کرتے، اب تھوڑے سے نفع پر فروخت کرنے لگے۔ مال خریدنا اور پھر اسے بیچ دینا، اس سے منافع کماتے رہے۔ جن بیوپاریوں سے 90 دن میں ادائیگی کا وعدہ کیا ہوتا انہیں ایک مہینہ پہلے ہی پیسے ادا کر دیتے۔

جب اعتماد بڑھا تو انہوں نے کپڑے کی ایکسپورٹ پر توجہ دی۔ انہیں ایک جرمن کمپنی نے آرڈر دینا شروع کردیے، اس کی آمدنی میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ اس طرح چند ہی سالوں میں منیر بھٹی امیروں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ یہ نوکری لینے کے بجائے دینے کے قائل ہیں، اس لیے انہوں نے ایک فیکٹری لگائی۔ دنیا کے مشہور ترین برانڈکی جینز بنانا شروع کر دیں، جنہیں یورپ اور امریکا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسری فیکٹری لگائی۔ ان کے ہاں کام کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہے۔ ایسا شخص جسے رشتہ دار سپورٹ کرنے کو تیار نہ تھے، آج یہ کتنے بے روزگار ہم وطنوں کی معاونت کرنے لگے۔تین بار بیسٹ ایکسپورٹر کا ایوارڈبھی جیت چکے ہیں۔

بقول ان کے پیسہ کمانے کا اتنا شوق نہیں تھا جتنا ترقی کرنے کا اور کچھ کر دکھانے کا ۔10 سال تک نفع نقصان نہیں دیکھا صرف محنت کی۔ منیر بھٹی کا یقین ہے کہ اگر آپ کسی کام کا مستحکم ارادہ کر کے چلتےہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور راہیں ہم وار کرتا ہے ‘ اگر آپ نیک نیتی سے کام کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو انعام ضرور دے گا۔ بے شمار لوگ اس لئے کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ کہ ان میں استقامت نہیں ہوتی۔امید ہی وہ طاقت ہے جو ہمیں قدم اٹھانے اور آگے بڑھنے پر اکساتی ہے‘مایوسی کو گناہ سمجھیں‘ مایوسی آپ کے خواب چھین لیتی ہے اور کامیابی کےلئے خواب کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ منیربھٹی کے راستے میں ہزار رکاوٹیں اور مشکلات آئیں لیکن انہوں نے کبھی بھی امیدکا دامن نہیں چھوڑا۔ 

وہ مسائل کو ہمیشہ ایک چیلنج کے طورپر قبول کرتے رہے‘ بے شمار دفعہ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ اب راستہ رک گیا لیکن وہیں سے ایک نیا دروازہ کھل جاتا اور اس دروازے کے کھلنے کی وجہ وہ امید تھی جس کی شمع انہوں نے روشن کی ہوئی تھی۔ منیر بھٹی کی کاروباری کہانی نوجوانوں کےلئے بطور مثال ہے‘ بے شمار تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بھٹی کو لیکچر کےلئے دعوت دیتی ہیں، جووہ خوشدلی سےقبول کرتے ہوئے طلبا کونوکری لینے والا بننے کے بجائے نوکری دینے والا بننے کی تحریک دیتے ہیں۔ 

ان کے لیکچر سے ہزاروں لوگ فائدہ اٹھا چکے ہیں‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اور باہر کے ملکوں کے وفود ان کی خوبصورت فیکٹری کاوزٹ کرنے آتے ہیں۔ تعلیم سے انقلاب تب ہی ممکن ہے جب تعلیم آپ کے اندر خوبیاں پیدا کرے‘ صرف ڈگری سے امیر نہیں ہوا جا سکتا۔