احسن اقبال
جب سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کی بات ہوتی ہے توساتھ ہی مغرب کا نام بھی آتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ماڈرن دُنیا کی زیادہ تر ترقی یافتہ اقوام مغرب کی ہیں اور اِس وجہ سے وہ دوسری اقوام پر برتری بھی جتاتی ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے۔ یہ اقوام ہمیشہ سے ایسی ترقی یافتہ نہیں رہیں بلکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں تھیں۔
تصویر کے دوسرے رُخ میں اِن ترقی یافتہ اقوام کا تاریک ماضی ہے جس میں ہمارے لیے ایک عبرت ناک سبق بھی موجود ہے کہ جب ہم نے اپنا اوڑھنا بچھونا علم کوبنایا تھا تو اُس وقت ہم دُنیا کی امامت کے منصب پر سرفراز تھے اور جب ہم نے اِس مقدس میراث کو پسِ پشت ڈالااور دُنیا کے پیچھے بھاگنے لگے اوراِ س کی خاطر آپس میں ہی دست و گریباں ہوگئے تو پھر قدرت نے عرش سے زمین پر دے مارا۔
جب سر درد کو بد روحوں کا چمٹنا کہا جا تا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کے لئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھیں، اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ جہاں ابن سینا "القانون فی الطب" کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی، وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات مذکورہ علم کی تحقیق اور ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنااور کہیں نئے علاقے فتح کررہے تھے۔
اُس وقت مسلمان کتاب کی محبت سے سرشار تھے اور کتابیں جمع کرنے کا جنون رواج پارہا تھا،صرف قسطنطنیہ میں 80ہزار سے زائد کتب خانے موجود تھے۔ دُنیا بھر میں کتابوں کی اتنی مانگ اور اشاعت نہیں تھی جتنی اسلامی دُنیا میں تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج اگر مغرب تہذیب و تمدن میں اپنی مثال آپ ہے تو یہ ورثہ انھیں مسلمانوں نے ہی دیا ہے۔ یورپ نے عربوں سے تہذیب حاصل کی اور یورپ کی تاریخ سے اگر عربوں کا نام نکال دیا جائے تو پھر یورپ کئی سو سال پیچھے چلاجائے گا۔
یہ وہ وقت تھاجب دُنیا کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کرنا اور دینی علوم کے ساتھ تمام دنیاوی علوم کو ساتھ لے کر چلنا اور تمام تر ہنر مندوں کو اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لیےاستعمال کرنا تھا۔
مسلمانوں نے اگر اپنے وقت کی سپرپاورز کو زیر کیا تھا تو اُس کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ علم و عمل کاایک بہترین نمونہ تھے، پھر وقت بدل گیا اور ساتھ منظر بھی۔ ہمارے "اکابرین" کوّے کے حلال و حرام ہونے پر مناظرے کرنے لگے، اور ہم نے اپنے نصاب میں وہ علوم شامل کردیے، جن میں نہ ہماری دینوی ترقی تھی نا آخرت کی کامیابی، جہاد اور مجاہدین ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگے، کھیرے، ککڑی، کیلے، مسواک کا سائز ہمارے اہم مسائل میں شامل ہوگئے۔ آمین تیز، اونچی یا آہستہ کہنے پر کفر کے فتوے لگنا شروع ہوگئے۔ فرض کے بعد دعا کرناجائز ہے یا نہیں پر جھگڑےہونے لگے اور پھر ہلاکو خان چنگیزی فوج نے مسلمانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلے اور کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کردئے۔
علمی کتابیں دریاؤں میں اس قدر بہائیں کہ پانیوں کے رنگ تک تبدیل ہو گئے اور مسلمان ایک ہزار سال پیچھے چلے گئے۔ آج ہم مغربی اقوام سے ہیبت زدہ اس لیے ہیں کہ شرو ع سے ہمارے ذہنوں میں یہی بات ڈالی گئی ہے کہ ، وہ انتہائی ذہین ،اعلیٰ دماغ کے مالک اور مسائل کا حل چٹکی میں نکالنے والے لوگ ہیں لیکن درحقیقت یہ مبالغہ آرائی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ذہانت ، عقل مندی اور حکمت کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ مغرب نے کچھ بنیادی اقدا ر کو اپنایا،جبکہ ہم نے اُنھیں ترک کیا اوراسی وجہ سے وہ ہم سے بہت آگے نکل گئے اور آج ہم اس حیرانگی کا شکار ہیں کہ "ہم دنیا کے مقابلے میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں خود اپنی ہی وجہ سے کھڑے ہیں۔ آج اگر اُمت مسلمہ ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے ہے تو اِس زوال کی وجہ بھی اپنے ’’اصل‘‘ سے کٹ جانا ہے۔
کاش نوجوان اِس حقیقت کوسمجھ جائیں اور مغرب سے مرعوب ہونا چھوڑ دیں اور اُس ڈگر پر چلیں جو ہمارے اسلاف کا اُوڑھنا بچھونا تھا۔