عمار احمد
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ کسی قوم کی تعمیر میں اس کے نوجوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں۔ اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کیسے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
یہ کام حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوں، سب کو مل کر کرنا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے۔ بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں تو ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال کریں۔ ایسا علم جو آپکو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بنائے اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر آپ میں لکھنے، پڑھنے،بولنے اور سمجھنےکی بہترین استعداد ہو گی، تب ہی آپ ملکی معملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔
اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ آپ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بےترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو اتنی محنت کے بعد حاصل ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی آپ کا اخلاق ایسا ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں۔ خاص طور پہ گھر کے اندر آپ کے اخلاق، میں کیا نسبت ہے، اس کو اس طرح سمجھیے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔ آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے۔
جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی وہ برہمی ان معاملات پہ بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دوکاندار گاہک سے الجھ رہا ہوتا ہے، پڑوسی دوسرے پڑوسی کی شکل سے بیزار نظرآرہا ہوتا ہے اور آفس میں ہر شخص دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جب اس بیزار اور الجھی کیفیت میں ذاتی اور ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کابھی کوئی کارآمد نتیجہ برامد نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کرنی ہے۔ آپ کی ذات لوگوں کے لئے سکون اور خوشی کا باعث ہو۔ آپ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ کہ ان کو بڑھاوا دینے والے۔
اگر ہم میں سے ہر شخص اور خاص طور پہ آپ نوجوان اگر اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کردیں توکچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن یہ بےسکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی۔ آپ کو اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں اور ان کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہو گا، تاکہ ایک دن جب آپ ایک ڈاکٹر، جج، وکیل، صحافی، استاد یا کسی بھی پیشے کی حثیت میں عملی طور پر مصروف عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بلا تر ہو کر معاشرے کی ان ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بنیں۔ جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتمای طور پہ وہ پوری قوم ہی ترقی کی رہ پہ گامزن ہو جاتی ہے۔
آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی آپ ہی کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں، تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائےگی۔