علم ایک ایسا سرمایہ ہے جو بانٹنے سے کبھی کم نہیں ہوتا, بلکہ مزید بڑھتا ہے۔بچپن سے بڑے بوڑھوں سے اکثر سنا کرتے تھے کہ بیٹا،’’علم‘‘ ہی وہ لاجواب دولت ہے، جس میں نہ کوئی بٹوارہ ہے اور ناہی کوئی حصے دار۔ جس کی روشنی میں انسان صحیح اور غلط کی تمیز بآسانی کرسکتاہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے، جس سے بگڑے ہوئے معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے۔
بڑے بڑوں نے علم کو نور اور جہالت کو تاریکی سے تشبیہ دیا ہے۔ زمانے کی تاریکیاں علم ہی کے بدولت دور ہوئی۔ یہ تو طے ہے کہ ایک دانا بینا ہستی اور ایک غیردانا بینا دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار تعلیم پرہی ہوتا ہے۔ علم زندگی کا نور ہے ، تمام بھلائیوں، عظمتوں، بلندیوں اور شرف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے ،اس کی وجہ سے انسان اپنا دین ، دنیا اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔ حصول علم کی تڑپ کا ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے۔
جرجان سے طوس جانے والا قافلہ دامن کوہ میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک پہاڑ کمین گاہ سے ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ۔اسی دوران ان ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ قافلے کا ایک لڑکا اپنا تھیلا ادھر اُدھر چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ سردار نے اپنے ساتھی سے اس لڑکے کو پکڑ کر لانے کو کہا۔
ڈاکو نے اسے لڑکے کو دبوچا اور سردار کے حوالہ کردیا ۔اس لڑکے نے اپنے تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹا لیا ۔یہ دیکھ کر سردار نے وہ تھیلا اس سے چھین لیا، لڑکا منت سماجت اور گریہ زاری کرتے ہوئے کہنے لگا ۔ ”تھیلے میں جو نقدی ہے وہ آپ لےلیں ،مگر جو کاغذات اس میں ہیں وہ براہِ کرم مجھے لوٹا دیں “۔
سردار بڑی حیرت سےاسےدیکھنے لگا کہ خلاف معمول اسے نقدی کی توفکر ہے نہیں، مگر ان کاغذات کی بڑی فکر ہے۔ آخر کیوں ؟
جب ڈاکو نے اس کی وجہ پوچھی تو لڑکےنے کہا کہ ان اوراق میں میرا وہ علمی سرمایہ ہے جو میں نے بڑے مصائب جھیل کر ،سفر کی تلخیاں سہہ کر حاصل کیا ہے، اگر یہ مجھے سے چھن گیا تو میں اپنے اس عزیز ترین علمی سرمایہ سے محروم ہوجاؤں گا۔
سردار چند لمحوں کےلیے حیرت میں ڈوب گیا ،پھر اس نے کہا،’’ صاحبزادے !وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں ،ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ علم تو وہ دولت ہے، جسے کوئی چُرا نہیں سکتا‘‘۔ یہ کہہ کر تھیلا نوجوان کی جانب پھینک دیا۔
وہ یہ بات کہہ کر آگے بڑھ گیا، مگر ادھر اس لڑکے کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سے مچ گئی۔ سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ ” وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں ۔“
سوچتے سوچتے اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر لیا ،وہ یہ کہ اب لکھے ہوئےعلم پر کبھی انحصار نہیں کرے گا جو کچھ سیکھے گا، اسے قرطاس و قلم کے حوالے کرنےکے ساتھ دل و دماغ میں نقش کرے گا ۔ اس فیصلےنے اس کی زندگی کا رنگ ہی بدل ڈالا۔ تحصیلِ علم کے لیے پھر اپنا سب کچھ قربان کرڈالا ، اپنے سینے اور اپنے دل و دماغ کو علوم کا مرکز بنالیا، پھر اس نوجوان کو سارے زمانے نے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے پہچانا جو کہ علمی دنیا کا درخشندہ ستارہ بن کر جگمگا ئے۔ انہیں تحصیل علم کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ علم کے میدان میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ عقلیات اور فلسفہ ان کی علمی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔
ہماری نسلِ نو کوبھی چاہیے کہ وہ علم ضرور حاصل کریں لیکن امتحانات دینے کی حد تک نہ پڑھیں بلکہ دل و دماغ کی اتہا گہرائیوں سے اسے سمجھ کر حاصل کریں۔ اپنی معلومات کو وسیع کریں۔ اپنے سینے اور اپنے دل و دماغ کو علوم کا مرکز بنا لیں، جہاں بیٹھیں وہاں اپنی ذہانت اور علوم کے ذخائر سے دوسروں کو بھی فیضیاب کریں۔