ڈاکٹر ظفر فاروقی
ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے موڑ آتے ہیں جب اسےلگنے لگتا ہے کہ وہ ہار گیا ہے، وہ اپنا مقصد پورا نہیں کر سکا۔ وہ ٹھکرا دیا گیا ہے۔ یہ اندھیرے یہ مایوسیاں، ان کا وجود صرف اور صرف دل و دماغ میں ہوتا ہے۔ زندگی کی یہ طویل المدت اور اعصاب شکن جنگ لڑنے کے لیے، اپنے اعصاب کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں، اپنے زاویہ نگاہ کو بڑا کریں، ذرا سوچئے کہ امریکہ کے رائٹ برادرز کے جہاز ایجاد کرنے کے بعد اگر امریکن سکون و اطمینان سے بیٹھ جاتے تو آج کیا بوئنگ جہاز آپ کی مسافتوں اور وقت کو مزید محدود کر سکتا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوچ محدود نہ تھیاس لیے وہ آگےبڑھتے چلے گئے اور ترقی کی منازل طے کرلیں۔
سوچ کی وسعت نے آج بلب کی شکل ہی بدل دی ہے۔ اب LEDبلب سے لے کر ہاتھوں میں LEDٹارچ آگئے ہیں۔ جی ہاں سوچ کی وسعت کی وجہ سے ترقی ہو تی ہے۔ہماری زندگی کے بیشتر مسائل کا حل بھی سوچنے سے سامنے آتا ہے۔ ناکامی اور کا میابی کا بہت حد تک انحصاراسی دائرہ پرمنحصر ہوتا ہے ، یہ جس قدر وسعت اختیارکرے گا، اُتنا ہی فائدہ ہوگا، حالات کے مطابق کامیابی کی طرف گامزن رہنے کا حوصلہ ملے گا۔
دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی کی ابتداء بھی ایک سوچ سے ہوئی تھی۔ غاروں کے دَور سے آج تک کی تمام ترقی صرف انسان کی سوچ اور غورو فکر کا نتیجہ ہے۔ انسان نے ابتدا سے ہی زندگی کو باسہولت بنانے کےلئے سوچنا شروع کیا اور آج اسی وجہ سے بجلی، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، کمپیوٹر، موبائل فون جیسی سہولیات میسر ہیں۔
اسی طرح طب اور ادویات کی تیاری میں سب سے اہم اور ابتدائی اور اولین کام ایڈورڈ جینرکو مانا جاتا ہے، جنہوں نے 13سالہ بچہ میں Cowpox کی ویکسین داخل کرکے کامیاب تجربہ کیا اور بعدازاں لیوس پاستیر Louis Pasteur (1897 اور 1904) کے دوران تجربات کرکے Cholera یعنی ہیضے کی ویکسین تیارکی۔ سوچ کی وسعت جاری و ساری رہی اور دنیا نے موجودہ دور میں Covid-19کی صورت میں دیکھا کہ سائنسدانوں نے اس ہی اولین کام کی بنیاد پر Covid-19 کی بھی ویکسین تیار کر لی تحقیق وجستجو کی لگن جاری رہتی ہے اور جستجو انسان کو نئی سے نئی ایجادات کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں جس کی بنا پر دنیا میں اس قدر ترقی ہوئی۔ یعنی سائنسدان یونہی بیٹھے نہیں رہے بلکہ مسلسل جستجو، لگن اور تحقیق میں لگے رہے اور آگے سے آگے بڑھتے رہے۔ سائنس نے وہ ترقی کی جس کی وجہ سے ہم اور آپ آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہی جستجو کی لگن ہمارے نوجوانوں میں بھی اگر اجاگر ہو جائے تو ہمیں بھی ترقی کی منازل کو چھونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اس امر کو بھی مدنظررکھنا ہوگا کہ آج ہمارے ملک میں تھوڑی بہت جو ترقی نظرآ رہی ہے وہ گوروں کے چھوڑے ہوئے نظام کی مرہون منت ہے۔ چاہے وہ ڈیم ہوں، ریلوے کا نظام ہو، ہوائی جہاز کا نظام یا انتظامی امور کا نظام یعنی بیوروکریسی وغیرہ وغیرہ ،مگر بالکل بھی ایسا نہیں ہے کہ بعدازاں ہم نے اس میں وسعت اختیار نہیں کی۔ مطلب یہ کہ ہم نے نئی جامعات بھی بنائیں۔ چند ایک ریسرچ ادارے بھی بنائے، مگر ان میں سہی معنوں میں کام نہ ہوسکا۔ دنیا میں جدید سے جدید ترقی ہوتی چلی گئی، مگر ہم اپنی محدود سوچ کی وجہ سے وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے معاشرتی، معاشی امور میں جمود طاری ہو گیا ہے۔ سوچ کی وسعت‘‘ کہیں نظر نہیں آرہی۔
مغربی یونیورسٹیز میں ان کی تمام مضامین میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً حیوانیات کے شعبے میں مزید درجے ہوگئے ہیں ۔اور مزید ڈیپارٹمنٹ بن گئے ہیں۔ اسی طرح اگر میرین نائلوجی لیں تو ان میں کئی کئی نئے ڈیپارٹمنٹ بن گئے ہیں۔
’’سوچ کی وسعت ‘‘پیدا ہوتی ہے تعلیم سے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے، تاکہ ہر شہری چاہے وہ کسان ہو، مزدور ہو، کاروباری طبقہ ہو، گھریلو خاتون ہو، ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ تعلیم یافتہ ہوں۔ اس سےان میں شعور آئے گا۔ درس گاہوں کا جال بچھا دیا جائے۔ مزید جدید جامعات قائم ہوں۔ موجودہ جامعات میں ہر ایک ڈیپارٹمنٹ میں مزید وسعت دی جائے۔ تمام شہرہوں یا گاؤں انہیں علم کی روشنی سے منور کردیا جائے۔
نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ موجودہ زمانے میں فکری وسعت رکھنے والے ایسےنوجوانوں کی اشد ضرورت ہے جن کو تحقیق سے عشق ہو اور جو تجزیہ کرکے مسائل کو سائنسی بنیادوں پر کھڑا کرسکتے ہوں، جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہوگی ، صنعتی انقلاب آئے گا۔ فکر اور تدبر کرنا اور ہمیشہ نئے نئے تجزئیے اور تحلیل پیش کرنا وغیرہ اگرچہ آسان کام نہیں، مگر اس کے باوجود یہ کام ناممکن بھی نہیں۔ کسی بھی مسئلے کوحل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے عمومی زاویے سے دیکھیں خواہ اس مسئلے کا تعلق منصوبوں یا مستقبل کے تصورات سے ہو۔
اس کے بعد واقعات کا شمولی انداز سے تجزیہ کریں اور جن چیزوں کو اپنے علم سے دیکھنا ممکن ہو ان کو اول سے آخر تک دیکھیں اور جب چیزوں کو دیکھنا مشکل ہو جائے تو متبادل افکار پیش کریں اور پھر ان افکار کو آزمائیں۔ ہر سوچ ایک حقیقت کو جنم دیتی ہے۔ آپ کے تمام حالات آپ کی سوچ کے مرہونِ منت ہیں، کیونکہ آپ جیسا سوچتے ہیں، ویسا بن جاتے ہیں۔ جو شخص کامیابی اور خوش حالی کا نہیں سوچتا، وہ اسے حاصل بھی نہیں کر سکتا۔لوگ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں، لیکن سوچ بدلنے کےلئے تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے اُن کی زندگی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔
ہمارے حالات ہمارا انتخاب نہیں، لیکن ہم اپنے خیالات کو ضرور منتخب کرسکتے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ’’ ہم اپنے خیالات کو بدل کر اپنے حالات بدل سکتے ہیں، اپنے مستقبل کو شان دار بنانے کے لئے اپنی سوچ کو جان دار بنائیں۔ آپ کی موجودہ حالت آپ کے ماضی کے خیالات کا نتیجہ ہے اور آپ کے مستقبل کو آپ کی آج کی سوچ متاثر کرتی ہیں۔ ملک کامستقبل نوجوانوں کی سوچ کے معیار اور اندازِ فکر پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ جتنا بامقصد اور بلند ہوگا اتنا تیزی کے ساتھ وہ ملک ترقی کرے گا۔