اسلام آباد( رپورٹ:رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ میںʼʼ حافظ قرآن طلبہ وطالبات کو ایم بی بی ایس میں داخلہ ،ہاؤس جاب اور انٹرن شپ کے موقع پراضافی 20 نمبر دینےʼʼ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی جج غلط حرکت کرے تو اس کا رویہ میڈیا پر کیوں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ؟ کیا سپریم کورٹ کاجج بن جانے پر کوئی بھی آپ کو پوچھ نہیں سکتا ؟یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا عالمی سطح پر کارکردگی میں 140 واں نمبر ہے، شفاف طریقہ کار سے مقرر نہ ہونیوالے مقدمات کے فیصلوں پر بھی سوالات اٹھتے ہیں،یہی وجہ میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل بیرسٹر شہزاد عطا الٰہی ، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)کے لاء افسر افنان کریم کنڈی اور دیگر فریقین کے وکلاء پیش ہوئے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے قواعد میں کہاں درج ہے کہ سپیشل بنچ بنایا جا سکتا ہے؟انہوں نے ججوں کے احتساب اور میڈیا میں ججوں کے کنڈکٹ سے متعلق گفتگو پر پابندی کے حوالے سے پیمرا کے نوٹیفکیشن کے اجراء پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ کیا پارلیمنٹ کا احتساب نہیں ہوتا، کیا جج قابل احتساب نہیں ہیں؟میرے علم کے مطابق ججوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔انہوں نے ریما رکس دیے کہ کیا آپ ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں؟انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر میں بطورجج کوئی غلط بات کروں تو میرا کنڈکٹ میڈیا میں کیوں زیر بحث نہیں آ سکتا ؟انہوں زیر غور مقدمہ کے لئے خصوصی بینچ کی تشکیل اورترتیب پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ اس طرح کے مقدمات کی سماعت کیوں نہیں کر سکتا ؟یہ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجر بینچ یا تین رکنی فل کورٹ کی بجائے اس کی سماعت کے لئے خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے ۔انہوں نے اٹارنی جنرل بیرسٹر شہزاد عطا الٰہی سے استفسار کیا کہ کیا خصوصی بینچ بنائے جانے چاہئیں؟ہاں یا نہ میں جواب دیں۔ جس پر انہوں نے موقف اپنایا کہ اگر عدالت اس معاملے پر مجھے باضابطہ نوٹس جاری کرے گی تو جواب دے دوں گا،تاہم سپر یم کورٹ کا کام کرنے کا طریقہ کار میرے لئے ایک معمہ ہے، جو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مقدمہ کی سماعت تو صرف اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب وہ شفاف طریقے سے مقرر ہوا ہو،شفاف طریقہ کار سے مقرر نہ ہونے والے مقدمات کے فیصلوں پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی بناء پر میں یہ کیس نہیں سن سکتا ۔دوران سماعت پی ایم ڈی سی کے لاء افسر افنان کریم کنڈی نے موقف اختیار کیا کہ ضرروی نہیں کہ ہر چیز قواعد یا آئین میں درج ہو،ہمارے عدالتی نظام میں روایت پر بھی عمل ہوتا ہے۔جس پرفاضل جج نے کہا کہ کیا ملک میں مارشل لاء لگ جائے توآپ اسے بھی روایتی عمل سمجھ کر قبول کر لیں گے؟انہوںنے بینچ کی کمپوزیشن پر سوال اٹھاتے ہوئے ریما رکس دیے کہ جو کچھ آئین و قانون میں درج ہو اسی پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے، تین مختلف ریگولر بینچوں میں متعین تین ججوں کو اکٹھا کر کے اس خصوصی بینچ میں بٹھا دیا گیاہے۔ یا تو یہ سب کچھ اتنا اہم یا فوری ضرورت کا معاملہ ہوتا کہ چھٹی کے دن بھی عدالت لگتی اور خصوصی بینچ تشکیل دیا جاتا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر چیف جسٹس قتل کے ایک ملزم کا مقدمہ تو کل سماعت کے لئے مقرر کر دیں اور ویسا ہی دوسرے ملزم کا مقدمہ مقرر نہ کریں تو کیا ہو گا؟ ججوں پر غیر ضروری الزامات نہیں لگنے چاہیئں۔ انہوں نے کہاکہ پیمرا نے ججوں سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے،پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے،کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟ایسے لیٹرز سے یہ تاثر جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے،اتنی دفعہ مارشل لاء لگ چکا کہ پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی ۔اٹارنی جنرل نے عدالت کے استفسار پربتایا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججوں کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبریں چلانے سے روکا ہے،جس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں آئینی ریگولیٹری باڈی ہے،پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے سٹیٹس میں ترقی کر دی ہے،کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟پیمرا ٹی وی چینلز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ اگر کسی سول جج کومیڈیا پرگالیاں دی جائیں تو پیمرا نہیں بولتا ۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا ماتحت عدلیہ کے جج کم تر مخلوق ہیں؟اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹر خبر نشر کردے تو کیااس کا چینل بند ہو جائے گا؟ پیمرا چینلوں پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری کوتباہ کر رہا ہے،حالانکہ پیمر کی ساری کمائی ا نہی ٹی وی چینلوں کے لائسنسوں سے ہوتی ہے۔فاضل جج نے کہاکہ جب کوئی ٹیلی ویژن خبریں نہیں چلا سکے گا؟ تو لوگ سوشل میڈیا کی جانب رجوع کریں گے۔انہوں نے کہاکہ پیمرا کا یہ خط اگر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج ہوجائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو سکتاہے۔ ا گر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمراضرور کارروائی کرے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیمرا کسی سیشن جج ، سول جج یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر ایکشن کیوں نہیں لیتا ؟پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا گیا تھا اور رجسٹرارنے اسے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی جس کے بعد معاملہ بنچ کی از سر تشکیل انتظامی حکم کے اجراء کے لئے چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا۔