اسلام آباد (جنگ نیوز،نیوزایجنسیاں)توشہ خانہ نااہلی کیس میں عمران خان کی گاڑی میں حاضری لگائی گئی، عدالت نےپی ٹی آئی چیئرمین کے وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے فرد جرم موخرکردی، اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کہا کہ آج واقعی سماعت ممکن نہیں، جج نے استفسار کیا کہ آرڈر شیٹ کہاں ہے،ایس پی نےجواب دیاکہ شبلی فراز صاحب کے پاس تھی،عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ایس پی جھوٹ بول رہے ہیں،جس پر جج نےکہا کہ چھوڑیں، یہ بتا دیں عمران خان کے دستخط ہو گئے تھے،ایس پی نےعدالت کوبتایاکہ مجھے نہیں معلوم، عمران خان کی پیشی کےدوران جوڈیشل کمپلیکس میں PTIکارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کی وجہ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، کارکنوںنے پولیس چوکی، پولیس موبائل اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا اور پولیس پر شیلنگ کی، مظاہرین کے پتھراؤ سے 9 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ، آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ پولیس پرشیلنگ ہمارے لیے نئی چیزہے، گزشتہ روز اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذرہا، سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے،پی ٹی آئی کے سکیورٹی خدشات کے سبب توشہ خانہ کیس کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس منتقل کی گئی تھی۔ تفصیلات کےمطابق اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کشیدگی کے باعث توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے انکے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیئے اور فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے جب عمران خان کمرہ عدالت میں نہیں پہنچے تو جج ظفراقبال نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ سماعت معمول کے مطابق ہونی چاہیے، صورتحال یہ ہے تو کیا کریں آپ ہی بتائیں۔عمران خان کے وکیل بابراعوان نے جج سے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نائب کورٹ کو باہر بھیج کر عمران خان کی حاضری لگانے کی اجازت دی جائے، جو حالات ہیں اس کے پیش نظر حاضری سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔بابراعوان نے عدالت سے کہا کہ باہر بہت گڑبڑ ہے، آپ میری بات مان لیں آج استثنیٰ دیدیں، جس پر عدالت نے نائب کورٹ کو گیٹ پر عمران خان کے دستخط لینے کا حکم دیدیا۔جج ظفراقبال نے کہا کہ عمران خان سے دستخط لیں اور انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں، اس دوران وکیل انتظار پنجوتا نے عدالت سے شکایت کی کہ ہمیں مارا جا رہا ہے، شبلی فراز کو ایس پی نوشیروان نے پکڑ لیا ہے۔اس موقع پر عدالت نے شبلی فراز کو پیش کرنے کا حکم دیدیا اور پولیس نے شبلی فراز کو عدالت میں پیش کر دیا، جسکے بعد شبلی فراز، ایس پی اور نائب کورٹ کے ساتھ عمران خان کے دستخط لینے چلے گئے۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ فرد جرم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، کیا آج آپ بحث کرنا چاہتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نہیں آج تو ممکن نہیں ہے۔خواجہ حارث نے بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے سے قبل درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے، درخواست قابل سماعت ہونے کے بعد فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جائیگا۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دستخط ہونے تک سماعت ملتوی کردی۔ بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کے ساتھ جانے والے ایس پی کمرہ عدالت پہنچے تو جج نے آرڈر شیٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آرڈر شیٹ شبلی فراز صاحب کے پاس تھی۔بیرسٹر گوہر نے روسٹرم پر کہا کہ میں ایس پی صاحب اور شبلی فراز کے ساتھ حاضری کیلئے گیا تھا اور میں نے عمران خان سے دستخط کروائے، واپسی پر ہم پر شیلنگ ہوئی اور ایس پی صاحب نے مجھ سے فائل لے لی، اب ایس پی صاحب عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس تمام واقعے کی متعدد وڈیوز بھی موجود ہیں، ایس پی ڈاکٹر سمیع ملک نے عدالت کو بتایا کہ اسی وقت شیلنگ اور پتھراؤ شروع ہوگیا، میں نے اپنا رومال بھی نکال کر شبلی فراز کو دیا۔جج ظفراقبال نے کہا کہ یہ بہت اہم دستاویز ہے، اس کو ڈھونڈ کر لائیں، ہمارے جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ ہے۔ایس پی سمیع ملک نے بیرسٹر گوہر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے فائل شبلی فراز کے حوالے کی تھی جبکہ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان کے دستخط کی ویڈیو سب نے بنائی کہ وہ دستخط کر رہے ہیں جبکہ شبلی فراز کو عدالت پہنچے میں تاخیر ہوئی۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایس پی نے کہا کہ میں زخمی ہو کر گر گیا تھا، جس پر جج ظفراقبال نے کہا کہ بس چھوڑ دیں، یہ بتا دیں دستخط ہو گئے تھے، ایس پی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم دستخط ہوئے یا نہیں۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انکا بیان ریکارڈ کریں، یہ سمجھتے ہیں ان کی نوکری بہت پکی ہے، یہ 3 بار بیان بدل چکے ہیں۔ایس پی سمیع ملک نے کہا کہ میں جان بوجھ کر فائل کیوں گھماؤں گا جبکہ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے پاس اس سب کی ویڈیو ہے، جب دستخط ہوئے تو سب نے پی ٹی آئی کے نعرے لگائے، تمام کاغذات پر عمران خان دستخط تھے۔ عدالت نے دونوں فریقین کو تحریری بیان دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں اپنا اپنا بیان لکھ کر جمع کرائیں کہ کیا ہوا، عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں۔