اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) امریکاکے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے مابین دونوں کے عرصہ اقتدار کے دوران گاڑھی چھنتی تھی جس کی وجہ سے دونوں میں کئی قدرے مشترک تھیں اور آج جب دونوں سابق ہو چکے ہیں تو دونوں کو ہی کو عدالتوں اور گرفتاریوں کا سامنا ہے پھر حیرت انگیز طور پر ڈونلڈٹرمپ جنہیں امریکہ کی گرینڈ جیوری کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران مشہور میگزین ’’پلے بوائے‘‘کے ایک ماڈل سٹار می ڈینیل کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر کی ادائیگی کے حوالے سے ایک کیس میں گرفتاری کا سامنا ہے یہ رقم ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے 2016میں ماڈل سٹار کو دی تھی جو ڈونلڈ ٹرمپ سے رومانوی تعلقات کی بھی دعویدار تھی ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے 2018میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے کے دوران مختلف جرائم کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم کی مالیاتی قوانین کی متعدد خلاف ورزیوں کا بھی اعتراف کر لیا تھا اور جیوری کو بتایا تھا کہ یہ تمام امور اور سب ادائیگیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر کی گئی تھی۔ یادش بخیر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں غیر ملکی تحائف کو حکومتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا انکشاف سامنے آچکا ہے۔ یہ رپورٹ ڈیموکریٹس کی طرف سے ایوان کی احتساب کمیٹی میں جمع کرائی گئی ہے جس میں الزام عائد کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیرملکی تحائف سے متعلق قانون پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں وائٹ ہاؤس نے 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے 100 سے زیادہ تحائف کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔ رپورٹ کے مطابق یہ تحائف ٹرمپ ،ان کی بیوی میلانیا اور بعض رشتہ داروں کو دیئے گئے، بعد میں ان تحائف کو حکومت کے حوالے کر دیا گیا لیکن ان کو امریکی قانون کے مطابق ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں سعودی عرب سے ملنے والے 16 تحائف کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کی مالیت 45 ہزار ڈالر سے زائد تھی۔ تحائف میں ایک خنجر بھی شامل ہے جس کی مالیت 24 ہزار ڈالر تک ہے جبکہ بھارت سے ملنے والے 17 تحائف کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ عمران خان کو بھی توشہ خانہ سے قیمتی گھڑی سمیت خطیر مالیت کے تحائف حاصل کرنے کے حوالے سے مقدمات اور گرفتاری کا سامنا ہے، پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کو اپنی انتخابی مہم، سیاسی پیغامات کی تشہیر اور مقاصد کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کیا تھا جس کے بعد بعض اعتراضات اٹھے تھے اور ان کے اکائونٹس بند کر دیئے گئے تھے اسی طرح عمران خان نے بھی ایک مضبوط موثر اور فعال سوشل میڈیا ٹیم قائم کی تھی جو آج بھی قائم ہے اور عمران خان کے مقاصد کی تکیمل کر رہی ہے صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان جو بحیثیت وزیراعظم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خاصےمتاثر تھے اپنے دورہ امریکہ سے واپسی پر اتنے خوش تھے کہ پاکستان پہنچنے سے قبل انہوں نے ایئرپورٹ پر اپنے استقبال کیلئے خصوصی تقریب کا اہتمام کروایا تھا جس میں ان کی کابینہ کے وزراء اور دیگر حکومتی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا ’’کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں امریکہ سے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں‘‘ دونوں سابق حکمرانوں کے درمیان ’’یو ٹرن‘‘ کی بھی مماثلت کے واقعات موجود ہیں مثلاً ڈونلڈٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالنے کے فوری بعد پاکستان پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان نے امریکہ سے پیسے لینے کے باوجود جھوٹ اور فریب کے سوا امریکہ کو کچھ نہیں دیا‘‘ لیکن عمران خان کے ساتھ ملاقات میں ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’ایران تو دروغ گوئی کرتا ہے لیکن پاکستان ہرگز نہیں‘‘ خود امریکی صدر کی طرف سے ان کی پاکستان پالیسی میں ان کے اس طرزعمل کو ’’یوٹرن‘‘ لینے کی صورت میں دیکھا گیا اور اب انتہائی قابل ذکر مماثلت یہ ہے کہ عمران خان کی طرح ڈونلڈٹرمپ کو بھی اپنی گرفتاری کا خدشہ ہے اور عمران خان کی طرز پر ہی اپنے حامیوں کو گرفتاری کا عندیہ دیتے ہوئے انہیں احتجاج کیلئے کہہ رہے ہیں۔ جبکہ امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی ادائیگیوں کے مقدمہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری کا امکان بہت زیادہ ہے سابق امریکی صدر نے بھی اپنے حامیوں کو مختلف ذرائع سے پیغام دیا ہے کہ مجھے آنے والے ہفتے امکان طور پر منگل کو گرفتار کرلیا جائیگا اور ٹرمپ نے اس کیلئے احتجاج کی کال بھی دیدی ہے۔