احسن اقبال
کسی بھی ملک کی معاشرےاور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگی، ان کے اطوار، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے۔جب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی سی بات ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے، نسلِ نومیں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت اورنشوونما کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔
ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ان کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اس وقت انہیں ماں باپ بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال اس واقعات سے لی جاسکتی ہے۔ گذشتہ ماہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سرکاری اسکول کا طالب علم کے بستے سےاسلحہ بر آمد ہوا تھا۔
ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں اورنگی ٹاؤن میں واقع ایک اسکول میں پیش آیا۔ ایک طالب علم اسلحہ لاتا ہے اور فائرنگ کر کے ساتھی طلبہ کو زخمی کر دیتا ہے۔ سب سے پہلے سوال یہ ہے کہ اس کے پاس اسلحہ آیا کہاں سے اس کے گھر والوں کو معلوم کیوں نہ ہوسکا، اسکول میں طلبہ کی چییکنک کیوں نہیں کی گئی، کیا وجوہات تھیں کہ وہ اسلحہ لے کر آیا کہاں سے لایا وغیرہ سارے سوالات اپنی جگہ ،لیکن اصل بات یہ کہ ہمارا معاشرہ جاکہاں رہا ہے۔
نسلِ نو کے جذبات میں اتنی شدت کیسے پروان چڑھ رہی ہے۔دراصل سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراغت بہت ہے، کوئی تعمیری سوچ نہیں۔ تعلیم کی طرف رجحان نہیں، ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر رہی ہیں۔وہ کم حوصلے اوربے عمل ہو تے جا رہے ہیں۔ خواہشات اور شیطانی وسوسے ان کے ذہنوں میں برا جمان ہورہے ہیں۔
پاکستان میں دو ملین سے زائد افراد انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں جن میں کثیر تعداد نسلِ نو کی ہے، جو زیادہ تر سوشل نیٹ ورک سائیٹس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔ یہاں بات تو ساری والدین پر آجاتی ہے کہ وہ ان کو اتنی کم عمری میں اتنے مہنگے موبائل کیوں دلاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے منفی اثرات نسلِ نو پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، پھر ان کی نگرانی بھی نہیں کرتے۔ بچوں میں اخلاقی طور پر کمی اور کردار میں آزادی و بے راہ روی کی وجوہات کے پیچھے عموماََ والدین کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی ہے۔
تعلیمی ادارے چونکہ نوخیز نسلوں کی آبیاری کے ضامن ہوتے ہیں اس لئے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے، تاکہ یہ بچے جب معاشرہ کے مفید رکن بن جائیں تو عملی زندگی سے پنپنے والا معاشرہ مضبو ط اور انتظامی معاشرہ ہو، نا کہ عدم استحکام اور انتشار زدہ معاشرہ۔تعلیمی اداروں میں اگر بانظر اجتماعی مشاہدہ کیاجائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ استاد کے ادب و احترام میں عدم توجہی کے ساتھ ساتھ نظم وضبط کا بھی شدید فقدان دکھائی دیتا ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ اس انتہا پسندی کی فکر کو مزید پھیلنے سےکیسے روکا جائے اور جو زہر معاشرے میں پھیل چکا ہے، اس کا علاج کیسے کیا جائے؟ یقینا حکومت سمیت پر ہر ذی شعور پاکستانی کو اس بے راہ روی کوروکنے کے لئے سنجیدگی سے خاطر خواہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
تعلیمی درسگاہوں میں ہر سطح پر تحمل اور برداشت کو فروغ دینے کے لئے نصاب میں اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو حصہ بنا کر طلبا و طالبات کے مابین مکالمے اور مباحثے کے کلچر کو فروغ دینا چاہئے۔اس ضمن میں اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو بری باتوں اور اس کے انجام سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں، اسی طرح والدین اپنے بچوں کی جسمانی نشونما کے ساتھ ذہنی تربیت بھی کرتے رہیں، وہ بچے کے اخلاق کی درستگی اور اس کی اصلاح اور شخصیت کے نکھار کے لیے سخت نگرانی اور ذمہ داری کے فریضہ سے قطعاََ غافل نہ ہوں۔
آج کل کے مسائل کے انبار میں حکومت اور ا س کے اداروں کی چشم پوشی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمیں اپنے گلشن کے پھولوں کی نرمی اور شگفتگی برقرار رکھنے کے کے لیے خود تازہ ہوا اور بہتر ماحول کا بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ ان سے ہی ہماری کل کی پہچان اور مستقبل وابستہ ہے۔