کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد، 2ججوں کا فیصلہ، صورتحال کے سیاسی اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں صرف اختلاف نہیں ہے کھلی تقسیم نظر آرہی ہے، کچھ ججز پی ٹی آئی کے جبکہ کچھ ججز حکومت کے موقف کے حامی ہیں، فل کورٹ بنائی جائے جو نوا زشریف کے فیصلے سے الیکشن کے فیصلے تک تمام فیصلوں کا جائزہ لیں تاکہ ابہام ختم ہو۔
منیب فاروق نے کہا کہ چیف جسٹس کا منصب انہیں انتظامی اختیارات دیتا ہے لیکن تمام ججوں کی اہمیت یکساں ہوتی ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر فل کورٹ بنایا جائے جو 63/Aسے لے کر اب تک تمام فیصلوں کا جائزہ لے، چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار پر سپریم کورٹ کی مجموعی رائے آنا ضروری ہے، سپریم کورٹ کے ججوں میں صرف اختلاف نہیں ہے کھلی تقسیم نظر آرہی ہے، چار ججوں میں سے دو ججوں نے الیکشن ازخود نوٹس کیس میں اپنی رائے دی اور بتایا کہ وہ بنچ کا حصہ تھے۔
ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس میں دو ججوں کا اختلافی نوٹ آنے کا وقت بہت کمال ہے، پانچ رکنی بنچ نے الیکشن ملتوی کرنے کا کیس سننا شروع کیا تو فوراً ہی یہ اختلافی نوٹ سامنے آگیا، بنچ سے الگ ہونے والے ججوں کو کیسے بنچ کا حصہ شمار کیا جاسکتا ہے
الیکشن ملتوی کیس میں فل کورٹ بننا چاہئے ورنہ پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ کوئی نہیں مانے گا، ہائیکورٹ او ر سپریم کورٹ کے تمام ججز کہتے ہیں آئین کے مطابق انتخابات 90دن میں ہونے چاہئیں۔