• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احساس نایاب

اگر عورت چاہے تو گھر کو جنت بھی بناسکتی ہے اور دوزخ بھی۔ صنف نازک ہونے کے باوجود اللہ نے عورت کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے، جس کی وجہ سے ایک اکیلی عورت بڑی سے بڑی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنے گھر خاندان کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خاندانی، سماجی اور معاشرتی زندگی میں عورت کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خواتین میں قوت ارادی مردوں کی نسبت زیادہ دیکھی گئی ہے۔

پیار، اپناپن، صبر، جذبۂ قربانی اور بےلوث محبت کے ذریعے عورت نہ صرف میکے بلکہ پرائے گھر یعنی سسرال کے انجان ماحول میں اجنبی لوگوں کو اپنا بناتے ہوئے خود کو ہر رنگ میں ڈھال لیتی ہے اور مرتے دم تک اپنے تمام فرائض، ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیتے ہوئے اینٹ پتھر سے بنے مکان کو جنت بنادیتی ہے، لیکن اس کے برعکس بعض عورتیں اپنے غیر اخلاقی رویے سے اچھے بھلے جنت نما گھر کو دوزخ میں تبدیل کردیتی ہیں۔ بدگمانی، غلط فہمی، گھمنڈ، ضد اور شک کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو طول دےکر گھر کا ماحول بگاڑنے، نااتفاقیوں کو ہوا دینے کا کام کرتی ہیں، جس سے دیکھتے ہی دیکھتے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں بھی دڑاڑیں پڑجاتی ہیں۔

ویسے تو شک اور بدگمانی کے الفاظ بہت چھوٹے ہیں لیکن ان کا اثر زہر سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے، جو ایک ساتھ کئی گھروں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ رشتوں کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھرا پرا خاندان برباد ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے آئے دن طلاق جیسے ناپسندیدہ معاملات وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ 

ماں باپ کی آپس کی لڑائیاں، نفرت انگیزحالات اور طنزیہ گفتگو کی وجہ سے بچے اپنا ہنستا کھیلتا بچپن کھو رہے ہیں، صحیح اور مناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے بھٹک رہے ہیں اور دو خاندان رنجشوں کا شکار بن رہے ہیں۔ گرچہ آپس میں غلط فہمیاں اور نااتفاقیاں پیدا ہونا عام سی بات ہے، لیکن ان باتوں کو اتنا طول دیں اور نہ ہی خود پہ حاوی ہونے دیں کہ اوروں کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی زندگی عذاب بن جائے، کیوںکہ یہ جو شک ، بدگمانی اور غلط فہمیاں ہوتی ہیں وہ اکثر وائرس بن کر انسان کی سوچنے سمجھنے کی طاقت و صلاحیت کو کمزور کردیتی ہیں اور ایک اچھے خاصے نارمل انسان کوبھی آہستہ آہستہ ذہنی مریض بنا دیتی ہیں، پھر زندگی عذاب اور جنت نما گھر جہنم بن جاتا ہےاُس وقت ہمدردبھی دشمن لگنے لگتے ہیں۔

اس لیے انہیں اپنی زندگی اور اپنے وجود سے دور کریں اور اللہ رب العزت کے فیصلوں پہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا سے جو بھی ہوگا وہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا، اور اس پاک ذات کی رضا میں ہمیشہ راضی رہنا سیکھیں، بس، اپنے اخلاق اور اپنی ذات کو ہمیشہ نیک اورصالح بنائے رکھیں، اپنے اندر موجود نیک صفات اور عمدہ اخلاق کو گم ہونے نہ دیں، کیوںکہ یہی عورت کا انمول زیور ہیں، جس کی موجودگی سے ہر عورت مالدار کہلاتی ہے، ورنہ چہرے کی خوبصورتی، سونے چاندی، قیمتی جواہرات کا ہونا بھی ان نیک صفات کے آگے بےمعنی ہے۔

یاد رکھیں، سچے رشتے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، اگر ہم ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے تو وہ ٹوٹ کر بکھرجائیں گےاور ٹوٹے ہوئے پھولوں کا دوبارہ جوڑنا ناممکن ہو جاتاہے، اس لئے پھولوں کو تاعمر تروتازہ اور مہکتا رکھنے کے لئے اپنی سوچ کے دائرہ کو وسیع کریں،صرف اپنے دل کو ہی اپنا رازدار بنائیں، تاکہ اپنی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ اختلافی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے درگذر کرنا اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں، کیوںکہ عورت کے احساس، پیار، محبت، صبر، ہمدردی اور قربانی کے طاقتور جذبوں کا نام ہے۔ جان لیجئے کہ خوشحال گھر کی ضامن صرف عورت ہی ہے۔