• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدلتی تہذیب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بچےکہتے ہیں’’ماما آپ کو کیا پتا ، اب دور پہلے جیسا نہیں رہا ۔ زندگی مجھے جینی ہے مجھے پتا ہے میں کیسی لڑکی کے ساتھ خوش رہوں گا۔ اپنی زندگی پر میں کسی کی مرضی نہیں چلنے دوں گا، دوں گی ۔‘‘یہ وہ جملے ہیں جو نئی بدلتی تہذیب بلکہ یوں کہہ لیں کہ جدید تعلیم کی پیداوار ہیں ۔ ہماری نئی نسل کون سی تعلیم حاصل کر رہی ہے کہ ڈگری ملنے سے پہلے اور بعد میں ماں باپ کو جاہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ 

یہ یونیورسٹی کی کون سی یاجوج ماجوج ہیں،جن کو اپنے ماں باپ کی باتیں بری لگتی ہیں۔ زندگی کے مصائب کی ہوا کھائے بغیر اتنے تجربہ کار ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لینے لگیں گے۔ ماں باپ کے ساتھ کی بھی ضرورت نہیں۔ دنیا کی دھوپ میں وہ ننگے پاؤں چلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کو کون بتائے گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے۔ مائیں جن کی کوکھ سے تم جنم لیا وہ تمھارے قدموں کی آہٹ سے تمھارے دلوں کے وہم و گمان تک جان لیتی ہیں، ایسا اس لیے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ منصب ماں پر فائز ہیں ان کی ممتا ان خوبیوں سے متصف ہے کہ وہ تمھاری عادات سے بخوبی واقف ہیں تم انہیں زبانی یاد ہو۔

 یہ کوئی ڈائیلاگ نہیں ۔ رحمن کا دیا وہ علم ہے جو دھوپ میں اولاد کی خاطر پسینہ بہانے والا باپ اور پورا دن گھر میں نوکرانی بن کر تمھارے قدموں کی دھول صاف کرنے والی ماں کو خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کے جن نظریات کی آبیاری آج ہمارے ہاں کی جا رہی ہے وہ ان قوموں کی ترقی کا راز ہوتے تو ہم فی الفور ان کو اپناتے وہ نظریات خاندانی نظام سے متصادم ہیں۔ کیا اب ہمارے بچے ایسی تہذیب کو اپنے اسلامی اصولوں ادب و آداب پر ترجیح دیں گے جن قوموں میں خاندان کا تصور ہی نہیں۔ 

جہاں ایک بڑی تعداد کے پاس والد ین جیسی عظیم ہستی کا سایہ ساتھ ہی نہیں۔ نسل نو کو بتانا ہو گا ماں کے آنچل میں جو سکون ملتا ہے اور باپ کی دعا جو مشکل وقت میں سہارا بن جاتی ہے وہ صرف اور صرف ہماری تہذیب کا حسن ہے۔ ماں باپ کی اولادسے لازوال محبت دیکھ کرتپتی دھوپ بھی سایہ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ بچے کے چہرے پر خاموشی پڑھ کر ماں کا تسلی دینا اور بخار کی صورت ساری رات گود میں سر رکھے دعائیں کرنا، اپنی عمر تمھیں لگا دینا یہ حوصلے خالصتا ہماری تہذیب کی ماوٗں کے ہیں ۔اپنی جاں فشانی، خدمات، عنایات کے عوض اُسےاپنے جگرگوشوں سے کچھ خاص غرض و طلب بھی نہیں ہوتی، نہ ہی صلے، ستائش کی چاہ۔لیکن جب ماہ و سال کی مالا جپتے، وقت گزرتا ہے، تو یہی اولاد ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بجائے، شکوے شکایات کے باب کھولنے لگ جاتی ہیں۔

ماں باپ کوبرابھلاکہناآج کے نوجوانوں کاخصوصی مشغلہ ہے۔ ماں باپ دنیاکی بڑی بہت بڑی نعمت ہے۔ خدارا ان دونوں کاقدرکیجئے۔ غفلت میں پڑی اولاد یہ جان لے کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں، وہ ان کی مرہونِ منّت ہیں۔ یاد رکھیں، یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، جیسا رویہ والدین کے ساتھ رکھیں گے آپ کی اولاد بھی ویسا ہی آپ کے ساتھ کرے گی ۔ نوجوان طبقے سے گزارش ہے کہ خداکے لئے دنیاکی ان عظیم ہستیوں کی بے قدری سے ہرممکن بچیں،جن کے والدین حیات ہیں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے ،ان کی دل وجان سے خدمت کریں۔

اے نوجوانو!مغرب زدہ مت ہو جاو ٔ کہ تمھاری اچھی اقدار یرقان کی طرح پیلی پڑ کر مر جائیں ۔ اپنے آباو اجداد پر فخر کرو جن کی ان اقدار نے تمھیں محبت، سکون، دعا ،وفا، ایثار اور شفقت کی دولت سے نوازا۔ اولڈ ہوم میں ماں باپ جمع کروا دینے والی کھوکھلی دم توڑتی قوموں کے پاس ترقی کی نئی راہیں ضرور ہیں، مگر ترقی سے لطف اٹھانے اور مل بیٹھنے کے وہ شجر سایہ دار نہیں جن کو ماں باپ کہا جاتا ہے۔ بس یہ بات دل کی ڈائری پر لکھ لیں کہ ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے۔ اے نسلِ نو!یاد رکھنا یہ مغربی معاشرہ جن کے ہاں اولڈ ہوم ہیں ان کے ہاں سے ہی مدر ڈے منانے کی روایت چلی لیکن ہمارا ماننا ہے ماں کا دن نہیں ہوتا بلکہ ماں سے ہی دن ہوتا ہے۔

(ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب ’’کامیاب زندگی کے راز‘‘سے انتخاب )