اسلام آباد (رپورٹ:،رانامسعود حسین ) عدالت عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختونخواء کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف دائر کی گئی پی ٹی آئی کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال شدیدجذباتی ہوگئے اور فرط جذبات سے انکی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے
انہوں نے کہا کہ میرا بھی دل اور جذبات ہیں، تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ایک جج کو سزا دینے کا کہاجارہا ہے،کہا جارہا ہے ساتھی جج کو ذبح کر دوں، ادھر ادھر کی باتوں سے جذباتی ہوگیا تھا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھری عدالت میں آنسو نہیں بہانے چاہئیں،آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی جذباتی ہوسکتے ہیں، چیف جسٹس کو بھری عدالت میں آنسو نہیں بہانے چاہئیں، منصف جذباتی نہیں ہوتا، غلط کام ہو رہے تھے تو آپکو روکنا چاہیے تھا، آئین کے روشنی میں فیصلے کریں
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظاہر کو شامل کرنا خاموش پیغام تھا، پیرکا سورج نوید لیکر طلوع ہوگا، جو کچھ کیا ایمانداری سے، حکومت اور اپوزیشن مذاکرات نہیں کرتے تو پھر عدالت آئینی کردارادا کریگی
دو سال سے ہمارے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں،ہمارے اہل خانہ کو سزائیں دی جارہی ہیں اور ہم خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں،سپریم کورٹ متحدہ اور کچھ معاملات میں اب بھی متحد ہے
انہوں نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے بنائے گئے ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کا ایک معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوادیا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہمارے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا تھا ، 2019 سے لیکر 2021 تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ میں کیس چلا اور سزاعدالت کو ملی.
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ ہی نشانے پر رکھا جاتا ہے ،انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کو بنچ میں کیوں شامل کیا ہے ،انہیں شامل کرنا ایک خاموش پیغام دینا تھا،کبھی ان کے اثاثوں کی خبریں آجاتی ہیں اور کبھی آڈیو لیک ہورہی ہے ،پچھلے دوسالوں سے ہی ہمارے ساتھ سخت زیادتیاں ہورہی ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے ،میں اس آفس کا شاید آخری جج ہوں جنہیں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نکال دیا گیا تھا اور وکلاء تحریک کے نتیجہ میں بحال ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ، ججوں کو ان کے دفاتر سے نکال کر گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا، میری زندگی کا معجزہ تھا کہ جب جج بحال ہو کر واپس دفاتر میں آگئے تھے کیونکہ 90 کی دہائی میں کئی بہترین جج واپس نہیں آسکے تھے
ان کے لئے کوئی وکیل سڑکوں پر نہیں نکلا تھا،س واقعہ نے میرا زندگی کا نظریہ ہی بدل دیا تھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
اگر آپ قانون پربات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو پھر میرا سامنا کرنا پڑے گا،انہوں نے کہاکہ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں،آج تک جوکچھ کیا ہے پوری ایمانداری سے اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر ، آئین اور قانون کے مطابق کیاہے
اگر ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسران کو کہیں کہ وہ سراغ لگائیں، ٹیکس کے معاملے پر ایک جج کا کیسے ٹرائل کریں؟فاضل چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میرٹ پامال کرکے پسندیدہ لوگوں کو نوکریاں دینے کی پاداش میں وکلاء تنظیموں کے دباؤ پر مستعفی ہونے والے سپریم کورٹ کے سابق جج
اقبال حمید الرحمان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تو اپنے دوست ، جسٹس اقبال حمید الرحمان کو بھی بار کے دباؤ پر استعفیٰ دینے سے روکا تھا، لیکن انہوں نے کہا تھا کہ مرحوم باپ (پاکستان کے دو لخت ہونے سے متعلق تشکیل دیے گئے حمود الرحمان انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس حمود الرحمان) کی روح کو کیا منہ دکھاؤں گا؟
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایک بہترین جج تھے ،جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھری عدالت میں آنسو نہیں بہانے چاہئیں، جب یہ سارے غلط کام ہورہے تھے اس وقت آپ کو انہیں روکنا چاہیئے تھا، آپ اس وقت جذباتی ہو رہے ہیں ،لیکن فیصلے جذبات سے نہیں بلکہ آئین اور قانون کی روشنی میں کرنا ہوتے ہیں
آپ نے جذبات کی روء میں وکلاء پر الزام عائد کردیاہے کہ ان کے دباؤ کی وجہ سے آپ کے ایک ساتھی جج، جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا، اگر آپ کو ان کے جانے کا اتنا ہی رنج تھا تو انہیں مستعفی ہونے سے روک دیتے، آپ سپریم کورٹ کے جج تھے ،انہیں انصاف دلاتے ،آج آپ ان کے لئے بھی جذباتی ہوگئے ہیں تو کل کلاں ہم (وکلاء برادری)بھی جذباتی ہوسکتے ہیں،آپ سارا معاملہ وکلاء پرمت ڈالیں،اگر وکلاء جذباتی ہوگئے تو؟آپ نے وکلاء سے متعلق جو بات کہی ہے وہ درست نہیں ہے
ایک منصف کبھی بھی جذباتی نہیں ہوتا ہے ،منصف تو آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، انہوں نے کہا کہ آئین ہمارے لیے، اس قوم کیلئے، اس معاشرے کیلئے بہت اہم ہے۔