• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں اس وقت جو ہورہا ہے وہ انصاف نہیں، سینئر صحافی

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حسن ایوب خان نے کہا ہے کہ میری ذاتی رائے میں اس وقت جو ہورہا ہے وہ انصاف نہیں ہورہا.

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا ہے تو پھر آئین کے مطابق سپریم کورٹ کا بنچ بننا چاہئے.

سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نےکہا کہ عجیب سی بات ہے کہ جب کسی جج کی نوکری کا معاملہ ہوتا ہے تو فل کورٹ ضرور بنتا ہے.

 سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت قانون رولز تو ہیں ہی نہیں ایسا لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں دو دھڑے ہیں، دونوں کوشش کررہے ہیں کہ میری بالادستی ہو ۔

میزبان سلیم صافی نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ بدقسمتی سے وہی کچھ ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے تھا، ایک طرف ہمیں ملک کی سب سے بڑی عدالت تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے دوسری طرف حکومت اور عدالت عظمیٰ تصادم کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، آج کے جرگہ میں ہمیں مجبوراً پھر سپریم کورٹ اور حکومت کے معاملات پر بات کرنی پڑرہی ہے، البتہ ہمارے بنچ میں ضروری نہیں ہے کہ آپ کو اسی طرح ہم خیالی نظر آئے کیونکہ یہاں پر ورائٹی ہے اور آزاد سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔

حسن ایوب خان نے کہا کہ صحافتی اقدار بھی بعد میں آئیں گی پہلے میرا ایمان آئے گا، رمضان المبارک کا مہینہ جارہا ہے، میرا اپنا اچھا ریلیشن تھا آج بھی میری طرف سے تو قائم ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کے ساتھ۔

 لیکن میری ذاتی رائے میں اس وقت جو ہورہا ہے وہ انصاف نہیں ہورہا سپریم کورٹ میں، حق بجانب چیف جسٹس نہیں ہیں کیونکہ ، آپ نے انصاف فراہم کرنا ہے تو انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے، یہاں پر جب بنچز تشکیل پاتے ہیں تو لوگ پہلے ہیں، آپ سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں کہ واٹس ایپ میسجز میں لوگ پہلے ہی بتادیتے ہیں کہ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہونے جارہا ہے، یہ ریشو بتادیتے ہیں کہ یہ 3-2کا فیصلہ ہے یا 4-2کا فیصلہ ہے یہ متفقہ فیصلہ ہے، اس حد تک تاثر آچکا ہے کہ اتنی زیادہ جانبداری چل رہی ہے ۔

 پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی جماعت ہے، ٹھیک ہے وابستگی ہوگی، ان کی فیملیز کی بھی وابستگی ہوگی لیکن چیف جسٹس کو یا دیگر ججوں کو ان کو انصاف کرنا ہے، ان کو اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ کسی کے لئے ان کا سافٹ کارنر ہے، اب پچیس مئی کو سپریم کورٹ کے حکم کی حکم عدولی ہوئی، اس کے بعد تمام اداروں نے اپنی رپورٹس دیں، وہ رپورٹس آج تک سپریم کورٹ آف پاکستان میں موجود ہیں اس کو ردی بنادیا ہے لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔

 سلیم صافی کے سوال یہ آپ اس کی بات کررہے ہیں جس میں سپریم کورٹ نے انہیں جلسہ کی اجازت دی تھی اور ساتھ شرط لگائی کہ آپ لوگوں نے ایچ نائن سے آگے نہیں جانا؟

حسن ایوب خان نے جواب میں کہاکہ جی نائن ، ایچ نائن کے درمیان کا علاقہ مختص کیا گیا تھا، اور سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے وکلاء نے assurance دی تھی اور پھر اس کے بعد ان کو کہا گیا تو وہ سینٹورس کے سامنے تک تو پہنچ گئے تھے، پھر جو آگ لگائی گئی، عمران خان کا کنٹینر بھی سینٹورس کے پاس پہنچ گیا تھا اور جو ان کے ورکرز تھے وہ تو ڈی چوک تک پہنچ گئے تھے، آپ احتجاج کرنے جارہے ہیں تو پہلے حکومت سے اجازت لینی ہے، جہاں پر ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے آپ کو اجازت دی ہے وہیں پر جاکر احتجاج ریکارڈ کروانا ہے آپ خلاف ورزی نہیں کرسکتے، جب آپ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں assurance دی ہے تو یہ سب کچھ ہوا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ، وہ رپورٹس بھی موجود ہیں لیکن چیف جسٹس نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

حسن ایوب خان نے کہا کہ باقی کسی کے اوپر آتا ہے تو آپ دیکھ لیں کہ یہاں پر ہماری حالیہ تاریخ دیکھ لیں تو طلال چوہدری، نہال ہاشمی، دانیال عزیز، ان تین لوگوں کو نااہل کیا، اس کے ساتھ سابق وزیراعظم نواز شریف کو چلیں آپ نے نااہل کردیا اس کے بعد 62ون ایف کی تشریح کی اور اس کے بعد ان کو تاحیات نااہل قرار دیدیا۔

 موجودہ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاستدان کا جیوڈیشل مرڈر ہے، ان کے اپنے پاس اختیار تھا سوموٹو ریویو کر کے سپریم کورٹ آج بھی 62ون ایف کو ختم کرسکتی ہے، اس کی تشریح کرسکتی ہے کہ یہ تاحیات نہیں ہے یا پانچ سال کیلئے ہے یا ون ٹائم ہے، تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس طرف نہیں جائیں گے، یہاں سی سی پی او لاہور کے ٹرانسفر کا کیس تھا اس کیس کے اوپر دو ججز اپنا نوٹ لکھتے ہیں اس کے اوپر سپریم کورٹ سوموٹو لیتی ہے اور کیس شروع ہوجاتا ہے، اس کیس میں نو رکنی بنچ بنا جو اب تین ممبرز پر آچکا ہے، یہ وہی تین ممبرز ہیں جن پر تمام سیاسی جماعتیں جو اس وقت حکومت میں موجود ہیں وہ تمام کی تمام جماعتیں عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہیں، سول سوسائٹی اور پاکستان بار کونسل جو وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے وہ کہہ رہی ہے فل کورٹ بنائیں لیکن چیف جسٹس فرمارہے ہیں نہیں، بیس گھنٹے ہمارے گزرچکے ہیں، ہم بیس گھنٹے کا وقت ضائع نہیں کرسکتے، we have to move forward ۔ moving forward کے لئے آپ کو اتفاق رائے چاہئے، آپ کو چاہئے کہ لوگ آپ کے فیصلوں پر اعتماد اور یقین کریں، اس کیلئے سب سے بہتر حل فل کورٹ بنانا تھا، ویسے تو چار تین کا فیصلہ آچکا ہے ان کو ضرورت ہی نہیں ہے۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ 90دن میں الیکشن ہوں گے، اس کے بعد پھر سپریم کورٹ میں یہ معاملہ نہیں جانا چاہئے، لیکن اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا ہے تو پھر آئین کے مطابق سپریم کورٹ کا بنچ بننا چاہئے، آئین کے اندر یہ گنجائش نہیں ہے کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایسا بنچ بنائیں جس میں خاص قسم کا فیصلہ آئے، آئین اس کی اجازت نہیں دیتا، مجھے معذرت کے ساتھ ایک لطیفہ یاد آگیا ہے، ایک درزی تھا وہ کپڑا خرید کر لایا بلکہ کوئی گاہک تھا وہ بہت مہنگا کپڑا لے کر آیا اور درزی کو دیا اور کہا کہ تم نے میرا قمیض شلوار بنانا ہے، دو تین دن بعد واپس آیا تو درزی نے اس کو ایک کاچھا پکڑا دیا، اس نے کہا میں نے تمہیں قمیض شلوار کا کہا تھا، اس نے کہا کہ میرا بچہ ہے وہ کام سیکھ رہا تھا اس نے قمیض بنانا شروع کی تو کپڑا اس سے غلط کٹ گیا تو اس نے شرٹ بنادی، شلوار کی جگہ اس نے پاجاما بنادیا، میں نے جب اس کو ڈانٹ ڈپٹ کی تو اس نے دوبارہ شرٹ کاٹنا شروع کی جو خراب ہوگئی اور نیچے پاجاما اس نے کاٹنا شروع کیا تو وہ کاچھا رہ گیا ، اب مسئلہ یہ ہے کہ بنانے کی کوشش تو ہم نے شلوار قمیض کی تھی لیکن اب کاچھا رہ گیا ہے اب یہی پہن کر گزارہ کریں، گاہک نے کہا کہ بھائی میں یہ کاچھا پہن کر بازار میں تو نہیں آسکتا مگر مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اب جو بھی فیصلہ ہوگا وہ کاچھا پہن کر ہوگا اور ساری پبلک کے سامنے ہوگا، کیونکہ نو ججوں کا بنچ اسٹارٹ ہوا اور دو ججوں نے recuse کیا ایک ہی ایشو پر، پھر دو ججوں نے اپنی رائے دی اس ہی ایشو پر، یہ چاروں باہر ہوگئے، پھر پانچ ججوں میں سے ایک جج نے recuse کیا اسی وجہ سے ،پھر چوتھے جج نے بھی، آخر میں یہ تین ججوں کا بنچ رہ گیا، اس طریقے سے فیصلے نہیں ہوتے، ایشو یہ نہیں ہے کہ 90دن میں الیکشن جج بھی یہی چاہتے ہیں یا کوئی اور بھی یہی چاہتا ہے، اگر یہ 90دن آئین کی منشاء ہیں تو بندیال صاحب خود اکیلے بیٹھ کر یہ کرلیں کیونکہ آئین میں بھی 90دن ہے اور بندیال صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں، پھر تو میرے کہنے پر 90 دن میں کرادینا چاہئے پھر سپریم کورٹ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آئین کہہ رہاہے ، ایشو یہ ہے ہی نہیں کہ 90دن میں الیکشن ہونے چاہئیں یا نہیں، اس وقت ایشو یہ ہے کہ آپ نے قمیض شلوار بنا کر دینا تھا، آپ اسے کاچھا نہیں بناسکتے، آپ نے نو ججوں کا بنچ بنایا، آپ کو چھ ججز چھوڑ کر چلے گئے۔ بنچ بنانے کا اختیار تو ان کے پاس ہےکے سوال پر؟ مطیع اللہ جان نےکہا کہ قانون میں نہیں ہے یہ قواعد میں ہے، قانون ابھی پارلیمنٹ بنائے گی اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون اور آئین کے مطابق قواعد ترتیب دیئے جائیں گے، پھر اس قانون کے تحت جو ہونا ہوگا۔

 اگر چیف جسٹس چیمبر میں بیٹھ کر یہ طے کررہے ہیں کہ اس معاملہ پر نو ججوں کا بنچ بن رہا ہے اور پھر جج چھوڑ کر جارہے ہیں، جج چھوڑ کر چلے گئے تین رہ گئے ہیں، چیف جسٹس کا جو انتظامی اختیار ہے وہ اس انتظامی اختیار کا فائدہ لے کر آئین کی تشریح کیلئے آئینی اختیار کو manipulate نہیں کرسکتا، اس میں ردوبدل نہیں کرسکتا اس کو بلکہ پوری قوم کو پتا ہے کہ یہ تین ججز کیا فیصلہ دیں گے۔ 

سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نےکہا کہ اگر یہ الزام پی ٹی آئی کا ہے تو اس کی صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے، یہ اس کا مطلب ہے کہ انتہائی بھونڈا اور غلیظ قسم کی گفتگو ہے جس کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے۔ 

چلیں ہم لوگ تو کور کررہے تھے اور ایونٹ جس طرح ان فولڈ ہورہے تھے و ہ آپ تک پہنچارہے تھے، دوسری بات یہ ہے کہ کیا اس اصول کو inherrit کرنا چاہئے کہ ایک فوجی آمر چیف جسٹس آف پاکستان کے بال کھینچے اور عدلیہ کو مفلوج کردے، کیا یہ ہمارے حق میں ہے، اس بات کو بھی دیکھا جائے، وہ ایک پرنسپل کی بات ہے کسی کی ذات کی حیثیت کے حوالے سے نہیں ہے، عدلیہ کی آزادی کا مطلب عاصمہ جہانگیر کہا کرتی تھیں کہ مادر پدر آزادی نہیں ہے۔ عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ آپ کا اشارہ جسٹس سجاد علی شاہ کے واقعہ کی طرف ہے، اس کے بھی آپ پیچھے جاکر دیکھیں تو وہ عدلیہ کے اپنے اندر ایک شروع ہوئی تھی، جب جسٹس سجاد علی شاہ کی بطور جج تقرری کے حوالے سے ایک کوئٹہ کے بنچ نے فیصلہ دیا تھا، اس وقت بھی یہ ہوا تھا کہ ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعہ سے جو اس وقت سینئر ترین جج تھے سعید الزمان صدیقی صاحب، انہوں نے ایک لارجر بنچ تشکیل دیا، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جج کہے اپنا فیصلہ کرنے کے لئے میں خود ہی جج ہوں، انہوں نے جب وہ بنچ بنایا تو جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک اور بنچ بنادیا، اس پر پھر جج صاحبان کے درمیان بھی، کیونکہ وہ بھی ایک ایڈمنسٹریٹو معاملہ سے شروع ہوئی تھی بات چیت، پھر اس کے بعد سجاد علی شاہ کو جانا پڑا تھا، ظاہر ہے اس وقت بھی ایک پرائم منسٹر کو توہین کے نوٹس پر گھسیٹا جارہا تھا، لوگ آئے تھے، آج آپ نے دیکھا نہیں عمران خان اسی روایت کو لے کر چل رہے ہیں جب وہ عدالتوں کے اندر پیش ہورہے ہیں، جو مار دھاڑ ہوئی ہے وہ ہم سب نے دیکھی ہے، اس میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے، عدالتوں کا احترام بالکل ہونا چاہئے، جائز بات ہے، ایگزیکٹو کا جوبھی ریاستی جبر ہے اس کے خلاف اگر کوئی ڈھال بنتا ہے تو وہ عدلیہ بنتی ہے، عدلیہ شہری آزادیوں کو کم نہیں کرتی بلکہ بڑھاتی ہے۔ 

عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی سائل کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ کہے کہ میری مرضی کے جج کے سامنے کیس لگائیں، اسی طرح کسی جج کا یہ اختیار نہیں ہے کہ مخصوص مقدمہ میں نے ہی سننا ہے، یہ اسی وقت نااہل ہوجاتا ہے جب کوئی جج اس طرح کی بات کرے یا کوئی letigate اس طرح کی بات کرے، اس کیلئے آپ کو کیا چاہئے؟، یہاں پر تو ہلکا سا اشارہ آتا ہے، اس کے اندر بھی بہت ساری چیزیں ہیں، ہم نے دیکھا کہ ایک جج ذرا سا جانبدار تھا کسی کمپنی کے ایک ایشو کے اندر ان کے شیئر تھے تو وہ اپنے آپ کو علیحدہ کرلیتے تھے، یہاں پر تو کلاس فیلو ہیں جو ایک پولیٹیکل پارٹی کے دوست ہیں اور وہ پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ ہیں اور جب آپ چیف جسٹس بنتے ہیں تو وہ واحد آدمی چیف جسٹس ہاؤس کے اس عشائیہ میں ہوتا ہے، ٹھیک ہے جج کے اپنے تعلقات ہوتے ہیں اس کی فیملی بھی ہے اس کے دوست بھی ہوتے ہیں، میرے اعتراض کی بات نہیں ہے لیکن پھر آپ کو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آئے کہ اگر میرے ساتھ کسی کا ذرا سا بھی تعلق ہے تو مجھے وہ چیز نہیں سننی چاہئے، آپ کو ویسے ہی نہیں سننی چاہئے، آپ نے فل کورٹ کی بات کی تھی،عجیب سی بات ہے کہ جب کسی جج کی نوکری کا معاملہ ہوتا ہے تو فل کورٹ ضرور بنتا ہے، چاہے وہ افتخار چوہدری ہوں، چاہے وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں، جب ایک قومی ایشو ہے، پنجاب یا خیبرپختونخوا آپ دونوں کو ملالیں ، اس کا اتنا بڑا ایشو ہے، جو پورے پاکستان کی سیاست کو چینج کردے گا یا حق حکمرانی کو ہر چیز بدل دے گا، اس پر کون سی یہ نازیبا استدعا ہے کہ ایک فل کور ٹ بنادیجئے، کیا فرق پڑتا ہے، اگر آپ نہیں سمجھتے کہ جو حلف آئین کے تحت آپ نے اٹھایا کیا آپ کے برادرججز نے نہیں اٹھایا۔

سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت قانون رولز تو ہیں ہی نہیں ایسا لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں دو دھڑے ہیں ۔ دونوں کوشش کررہے ہیں کہ میری بالادستی ہو دونوں اطراف قانون کا حوالہ دیا جارہا ہے ۔

اہم خبریں سے مزید