آسیہ عمران
رمضان المبارک کے بابرکت ایّام ہیں۔ سحری و افطاری کی تیاری، گھر کی صفائی ستھرائی اور بچّوں کے کام، گویا مصروفیات اِس قدر ہیں کہ عبادت و اذکار کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ یہ خواتین کا عمومی شکوہ ہے۔ ایسے میں دل کو تیر کی طرح چُھو لینے والی آیتِ مبارکہ یاد آئی ہے کہ ربِ کریم فرماتا ہے’’ (اے رسولؐ ! ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں(تو آپؐ فرما دیں کہ)بےشک، میں ان کے قریب ہوں، جب بندہ دُعا کرتا ہے، تو اُس کی دعا قبول کرتا ہوں، تو چاہیے کہ وہ (بھی) میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان برقرار رکھیں، تاکہ وہ کام یابی حاصل کریں۔‘‘
دعا ایسی عظیم عبادت ہے کہ ہمارا ربّ ہماری دل کی سرگوشی بھی سُن لیتا ہے، عبادت کی تڑپ کو قبول فرماتا ہے۔ اس کے لیے الگ سے وقت بھی نہیں نکالنا پڑتا، یہ عبادت کچن ہو یا بچّوں کے معاملات، شوہر کا انتظار ہو یا مہمان نوازی، آپ ربّ سے مخاطب ہوتے ہیں اور وہ آپ سے بات کرتا ہے، آپ کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ ربِّ کریم فرماتا ہے’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بےشک، وہ جو میری عبادت سے تکبّر کرتے ہیں، عَن قریب ذلیل ہو کرجہنّم میں جائیں گے۔‘‘
عموماً مانگنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے، مگر ربّ کا تو الگ ہی معاملہ ہے کہ اُسے مانگنے والے پسند ہیں، حتیٰ کہ چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بھی ربِ ّکریم کو پسند ہے کہ اُس کا بندہ اُس سے مانگے۔ احادیث میں تو جوتے کے تسمے تک کی اُس سے مانگنے کی ترغیب موجود ہے۔ یعنی دن، رات، صبح، شام کھانا بناتے، سرو کرتے، کسی بھی لمحے کا وقت آپ کی ربّ کریم سے بات چیت یعنی عظیم عبادت کا ہے۔ دلِ مضطرب سے نکلے الفاظ ہی دراصل دُعا ہیں۔
دنیا کے تمام مذاہب میں عبادات کے مختلف طریقے رائج ہیں، البتہ اُن سب میں قدرِ مشترک صرف دُعا ہے۔ دعا کا تصوّر قدیم ترین ہے اور یہ نظری اور عملی، دونوں صورتوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ جب بھی کسی نے خالقِ کائنات کو پکارا، وہ کبھی محروم نہیں رہا۔ یہ وہ عبادت ہے، جو ہر عمل پر محنت کے ساتھ مطلوب ہے۔یہ اتنی طاقت وَر عبادت ہے کہ دنیا بھر کے دماغ، ترقّی یافتہ ٹیکنالوجی جہاں جواب دے جاتی ہے، وہاں دعا کا کام شروع ہوتا ہے۔حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، دُعا کی صورت اُمید کی کرن ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ قرآنِ کریم نے دعا کرنے والوں کا عجیب معاملہ بیان فرمایا ہے،جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
سورۂ زمر، آیت 8 میں اللہ ربّ العزّت فرماتا ہے’’ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ اپنے ربّ کو پکارتا ہے، اِس حال میں کہ اُس کی طرف رجوع کرنے والا ہوتا ہے،پھر جب وہ اُسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے، تو وہ اس (مصیبت) کو بھول جاتا ہے۔‘‘ارشادِ ربّانی ہے’’ اور تمہارا ربّ کہتا ہے، مجھ سے دُعا مانگو، میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔‘‘ (سورۃ المومن)۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہی ہمارے پاس واحد سہارا ہے، ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے، اُسی در سے ملتا ہے۔ربّ ِ جلیل کے علاوہ ہماری مُراد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ اگر ہماری دعا کے قبول ہونے میں تاخیر ہو جائے، تو ہمیں مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ارشادِ ربّ العزّت ہے کہ’’ تم اللہ کی رحمت اور اُس کی مہربانی سے مایوس نہ ہو۔‘‘( سورۃ الزمر)۔ہمیں جو کچھ بھی مانگنا اور حاصل کرنا ہے،وہ مالکِ کائنات، اپنے مولیٰ ہی سے مانگنا ہے، اس کے علاوہ پوری کائنات میں ایسا کوئی نہیں ہے کہ جو ہماری مشکل و پریشانی دُور کر سکے۔
یہ میرا ربّ ہی ہے کہ جس کے قبضۂ قدرت میں یہ سب کچھ ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ’’ بے شک، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)۔ دُعا اتنی اہم ہے کہ دنیا میں کسی بھی مشکل کے وقت کوئی بھی انسان سب سے بڑی ذات کو پکارتا ہے۔انسان کی کئی نفسیاتی بیماریاں دُعا سے دور ہو جاتی ہیں کہ دعا قوّتِ ارادی کو بڑھاتی اور اُمید سے تعلق ٹوٹنے نہیں دیتی۔ دعا سے روحانی قوّتیں بے دار ہوتی ہیں اور اچھائی کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دُعا میں کیا مانگا جائے؟ ویسے تو جو جی میں آئے مانگا جا سکتا ہے، مگر شریعت نے اِس معاملے میں بھی ہماری بھرپور رہ نُمائی کی ہے کہ کہیں اِس معاملے میں انسان خیر مانگنے کی چاہت میں کچھ غلط نہ مانگ بیٹھے، لہٰذا قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں بے شمار ایسی دعائیں مرکوز ہیں، جن کی بے پناہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درود شریف کی بھی حد درجہ فضیلت ہے اور سورۂ فاتحہ بھی ایک دعا ہے۔ دُعا مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ربّ ِ کریم کی حمد و ثنا بیان کی جائے، درود شریف پڑھا جائے اور پھر اپنی حاجت پیش کی جائے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہم دعائیں تو کرتے ہیں، مگر وہ قبول نہیں ہوتیں۔ درحقیقت، ہم دُعا کی قبولیت اپنی مقرّر کردہ صُورت میں چاہتے ہیں، جب کہ ربّ ِ کریم اس کی قبولیت ایسی صورت میں فرماتے ہیں،جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔
کبھی کسی مصیبت کو ٹالنے کی شکل میں، کبھی مناسب وقت پر دعا قبول ہوتی ہے اور کبھی آخرت کے اجر کی صورت محفوظ کر لی جاتی ہے۔ آخرت میں جب انسان اس اجر کو دیکھے گا، تو خواہش کرے گا کہ اے کاش! اس کی دنیا میں کوئی دعا قبول ہی نہ ہوتی، تو کتنا اچھا ہوتا۔لہٰذا، آپ اللہ سے مانگیے، ہر چھوٹی بڑی چیز کے لیے، اولاد کے لیے،اپنے والدین،بہن بھائیوں کے لیے، مُلک و ملّت کے لیے کہ اُس کا در ہر وقت کھلا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے۔