کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے اور ماہرین قانون کہا ہے کہ سماعت کے دوران جو چار تین کا سوال اٹھایا گیا تھااس کا جواب فی الحال نہیں ملا،چیف جسٹس صاحب جسٹس منیر کے راستے پر گامزن ہیں.
جسٹس عمر عطا بندیال صاحب ، قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین صاحب کی سرکوبی کے راستے پرنکل آئے ہیں،حکومت اگر چار تین کے فیصلے کا راستہ لے گی اور عملدرآمد نہیں کرے گی تو توہین عدالت کا ایک راستہ رہے گا.
چیف جسٹس صاحب اختلافات کو بڑھارہے ہیں بینچ کی تقسیم کو بڑھا رہے ہیں لارجر بینچ میں فل کورٹ بنا دیتے،ہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کرے گی حکومتی ڈپارٹمنٹ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے یا نہیں کریں گے، اگر آپ فیصلے کو پڑھیں تو فیصلہ آئینی ہے اس میں کوئی غیر آئینی بات نہیں ہے.
عملدرآمد کرنا حکومت کے لئے لازم ہےعملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے ان پر توہین ہوسکتی ہے،اس پر عملدرآمد یقینی طو رپر ہونا چاہئے،مجھے نہیں لگ رہا ہے اتنی آسانی سے سب کچھ ہوجائے گا،میں نہیں سمجھتا کہ ہموار طریقے سے کام چل سکے گا ادار ے میں خلیج بڑھتی جارہی ہے واضح تقسیم سامنے آگئی ہے.
سپریم کورٹ نے مشکل وقت میں بہتر فیصلہ دیا۔سپریم کورٹ نظریہ ضرورت نہیں بنی اور آئین کے ساتھ کھڑی ہوئی،اس فیصلے کے بعد اس پرعملدرآمد ہم سب کی ذمہ داری ہے.
خصوصی نشریات میں حامد میر ،شاہزیب خانزادہ ،شہزاد اقبال،منیب فاروق ،مظہرعباس،ارشاد بھٹی ، انصار عباسی،حسن رضا پاشا اور سلمان اکرم راجہ نے اظہار خیال کیا۔
سینئراینکر و تجزیہ کار ،حامد میر نے کہا کہ کیوں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اب سامنے آگیا ہے تو ہم اس فیصلے کا ہر زاویئے سے جائزہ لینے کاحق رکھتے ہیں یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اس کا ہر زاویئے سے تجزیہ کرسکیں۔جہاں تک 8 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی تھی اس کو انہوں نے کالعدم قرار دے دیا۔
اب انہوں نے خود ہی پنجاب میں14 مئی کی تاریخ دے دی ہے۔جو فیصلہ آیا ہے الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔یقیناً سپریم کورٹ کے جو تین معزز جج صاحبان ہیں ان کے خیال میں آئینی ضرورت ہے انہوں نے الیکشن کمیشن کا اختیار بھی استعمال کرلیا۔ جو ایگزیکٹو کا اختیار ہے یعنی فنڈز جاری کرنے کا اختیاروہ بھی انہو ں نے اپنے اختیار میں لے لیا ہے۔