• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، جو PTI نے کیا تھا حکومت بھی وہی کرنا چاہتی ہے، تجزیہ کار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو کے کیپٹل ٹاک اور آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں اپنے تجزیے میں سینئر اینکر اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے ججز کے حوالے سے پی ٹی آئی نے جو کیا تھا حکومت بھی رہی کرنا چاہتی ہے، جو پک رہا تھا وہ تیار ہوچکا ہے، شاید اسے آج ہنڈیا سے نکال کر پلیٹوں میں سجاکر پیش کردیا جائے گا.

حکومت چاہتی ہے اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو،حامد میر نے بتایا کہ ماضی میں عمران خان اور سپریم کورٹ کے ججز اور ان کے فیصلوں پر تنقید کرتے رہے ہیں.

 انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ماضی کے کلپ بھی دکھائے جن میںچیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا میں اپنی عدلیہ سے پوچھنا چاہتا ہوں، میرے پیارے ججز میں نے کیا جرم کیا تھا کہ رات کے بارہ بجے آپ نے عدالتیں لگائیں۔

فواد چوہدری نے کہا تھا فیصلے میں پارلیمنٹ کی سپرمیسی نہیں رہی،پارلیمان کی حاکمیت سپریم کورٹ کی طرف شفٹ ہوگئی ہے،اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے حاکم عوام نہیں بلکہ چند ججز ہیں۔

شیریں مزاری نے کہا تھا سپریم کورٹ کا فیصلہ جوڈیشل کو ہے،پارلیمان کی اتھارٹی اور سپرمیسی ختم کردی اسے زیرو کردیا۔اسد عمر نے کہا تھا اگر سپریم کورٹ یہ بھی فیصلہ کرے گی کہ کس دن اجلاس ہوگا، کس منٹ پر شروع ہوگا تو اس پارلیمان کا کیا فائدہ، پیسہ بچائیں، اس کو ریپ اپ کریں اور گھر بھیج دیں۔

حامد میر نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ آج تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے کچھ بیانات سامنے آئے ہیں، اسد عمر نے ایک ٹوئٹ کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ آج پارلیمنٹ کی اقلیت نے پاکستان کی سپریم کورٹ کے بارے میں توہین آمیز باتیں کیں اور آئینی حدود سے بڑھ کر قرارداد اقلیتی رائے سے منظور کی

 پارلیمان سنبھالا نہیں جارہا اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ آج جو پی ڈی ایم کی حکومت کررہی ہے یعنی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اور آج تحریک انصاف کی قیادت الزام لگارہی ہے کہ یہ کتنے بدتہذیب لوگ ہیں کہ آئین کو نہیں مانتے اور جوڈیشری کی مخالفت کررہے ہیں، صرف ایک سال پہلے کیا صورتحال تھی ذرا کچھ بیانات دیکھئے۔

حامد میر نےکہا کہ ایک بڑی سچویشن ہے، ایک طرف پاکستا ن تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کہہ رہی ہے کہ عدالت کے حکم کو مانو اور آئین کے لحاظ سے آئینی طور پر وہ درست کہہ رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی جو آزاد کشمیر میں حکومت ہے اس کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کا جو موقف سامنے آیا ہے وہ آپ کو حیران و پریشان کردے گا۔

علی امین گنڈاپور کو جس بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے ہم آپ کو وہ بیان سنادیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ اس وقت کا بیان ہے عمران خان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد بہت کچھ ہوا ہے۔

حامد میر نے کہا کہ آپ صحیح پوچھ رہے ہیں کچھ نہ کچھ پک تو رہا تھا، پک نہیں رہا ہے پک رہا تھا، وہ پک کر تیار ہوچکا ہے، شاید اس کو کل ہنڈیا سے نکال کر پلیٹوں میں سجا کر پیش کردیا جائے گا، جو پکنا تھا وہ پک چکا، اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، تحریک انصاف اب اگر مذاکرات کی بات کررہی ہے تو اس لئے کررہی ہے کہ اس کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت میں سپریم کورٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں.

 انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے، اب صرف وزیراعظم اور ان کی کابینہ نہیں پوری قومی اسمبلی کھل کر سامنے آگئی ہے، ان کو بھی احساس ہے کہ ایک سال پہلے جو کچھ تحریک انصاف کی قیادت سپریم کورٹ کے خلاف بول رہی تھی وہی کچھ ایک سال کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت سپریم کورٹ کے خلاف بول رہی ہے.

مثال کے طو ر پر ایک سال پہلے شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ جو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے یہ جوڈیشل کو ہے، آج یہی ہی کچھ قومی اسمبلی میں جو قرارداد پیش ہوتی ہے اس میں بھی تقریباً وہی کچھ ہے، اس میں بھی جوڈیشل کو والی بات ہی ہے، کوئی فرق نہیں ہے.

 تحریک انصاف کو پتا ہے کہ الیکشن کمیشن جب گیارہ اپریل کو سپریم کورٹ کو بتائے گا کہ وزارت خزانہ نے ہمیں اکیس ارب روپیہ ٹرانسفر نہیں کیا ہے تو اس کے بعد وہ جو الیکشن ایکٹ 2017ء ہے اس کے تحت وہ کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس ریسورسز نہیں ہیں اور ہم نے الیکشن نہیں کروانا، اس کے بعد سپریم کورٹ کیا کرے گی؟،

 کیا چیف الیکشن کمشنر پر توہین عدالت لگائے گی؟، اسی لیے تحریک انصاف کی قیادت کوئی راستہ نکالنا چاہ رہی ہے کہ کسی طریقے سے چودہ مئی کو الیکشن ہوجائے لیکن کیونکہ سیاسی کشیدگی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب کوئی اپنی انا کا بت گرانے کیلئے تیار نہیں ہے، کوئی بھی آئین کا احترام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، مجھے نہیں لگ رہا تحریک انصاف مذاکرات کا اشارہ دے رہی ہے تو حکومت اس سے مذاکرات کر ے گی، حکومت نے تو آج کلیئر کردیا ہے کہ بات ہوگی تو صرف فل کورٹ پر ہوگی، میری ذاتی رائے میں اب فل کور ٹ بن جائے تب فل کورٹ بھی یہ مسئلہ نہیں کرسکتی، ابھی بھی تحریک انصاف کو سمجھ نہیں آئی، آج شام کو تو علی امین گنڈا پورا کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے.

اگر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس سے ایک دن پہلے علی امین گنڈاپور گرفتار ہوگیا ہے تو آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ جو کچھ پک رہا تھا وہ پک کر تیار ہوچکا ہے اور کل سب کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔

 حامد میر نےمزید کہا کہ یہ سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں یہ بڑی زیادتی ہے، اس لیے کہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان نے اتنا بڑا یوٹرن کیوں لیا ہے، خود آپ کتنی دفعہ عمران خان کے یو ٹرن اور ان کے پرانے کلپس چلاتے رہے ہیں، خود آپ قوم کو بتاتے رہے ہیں کہ عمران خان ہمیشہ خود اپنے موقف کی نفی کردیتے ہیں، آپ کو اچھی طرح پتا ہے کہ یہ عمران خان کی پرانی عادت ہے ان کی روایت ہے کہ وہ ایک بات کہتے ہیں پھر اس کو deny کردیتے ہیں.

 وہ باجوہ صاحب کو لائف ٹائم ایکسٹینشن کی آفر کرتے ہیں پھر اس کو deny کردیتے ہیں، یہی کچھ وہ موجودہ آرمی چیف کے بارے میں کررہے ہیں، میں آپ کو یہ بات اپنی انفارمیشن کی بنیاد پر بتاسکتا ہوں کہ تحریک انصاف نے موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے چینل کھولنے کی بہت کوشش کی، بہت زور لگایا، رائٹ سے لیفٹ سے نارتھ سے ایسٹ سے ہر طرف سے پیامبر بھیجے لیکن ان کا یہ خیال ہے کہ آپ ہمیں سیاست سے دور رہنے دیں.

جب وہ ان سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوتے تو پھر یہ انہیں پریشرائز اور بلیک میل کرنے کیلئے ایسا انٹرویو دیتے ہیں کہ شاید وہ پریشرائز ہوجائیں لیکن وہ نہیں ہورہے، آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا بہت جلد آپ کو پتا چل جائے گا کہ حالات کدھر جارہے ہیں.

 عمران خان کا جہاں تک یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہے وہ آرمی چیف کرتا ہے اور آرمی چیف پاکستان کا سب سے طاقتور انسان ہے ، یہ بات بھی وہ پہلے کئی دفعہ کہہ چکے ہیں، ان کی کتاب پڑھیں جو 2016ء میں شائع ہوئی تھی اس میں بھی انہوں نے یہی باتیں لکھی ہوئی ہیں اور آج 2023ء میں بھی وہ یہی باتیں کرتے ہیں، درمیان میں ایک پیریڈ آیا تھا جب جنرل باجوہ ان کیلئے بہت بڑے ڈیموکریٹ جنرل بن گئے تھے بعد میں پھر انہوں نے کہا کہ فساد کی جڑ یہی ہے

 اگر باجوہ صاحب کے بارے میں انہوں نے یوٹرن مارے ہیں ، اپنی اسٹیٹمنٹ کو تبدیل کیا ہے تو موجودہ آرمی چیف کے بارے میں بھی وہ ایسا بار بار کرتے رہے ہیں کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔

 حامد میر نے کہا کہ حکومت چاہتی یہ ہے کہ عدالت اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، پارلیمنٹ میں جوگفتگو ہوتی ہے یا اس کی پروسیڈنگ ہوتی ہے اس پر آپ توہین عدالت نہیں لگا سکتے،سینئراینکر و تجزیہ کار ،منیب فارو ق نے کہا کہ جوقرارداد ہے وہ سینس آف دی ہاؤس ہے اس کا کوئی بائنڈنگ امپیکٹ نہیں ہے ۔

سینئراینکر و تجزیہ کار ،حامد میر نےکہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں ایک بینچ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور ہوگئی ہے۔

قرارداد کا متن صاف بتا رہا ہے کہ وہ از روئے حق حاصل کررہے ہیں ۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی حکم عدولی کے نتیجے میں وزیراعظم یا کسی وزیرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے ۔

اٹارنی جنرل کورٹ میں کہے گا کہ وزیراعظم کو اور حکومت کو پارلیمنٹ نے پابند کیا تھا کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ماننا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ توہین عدالت کی کارروائی ہے تو ٹھیک ہے جن جن ارکان پارلیمنٹ نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے ان کے خلاف کارروائی شروع کریں۔

 یہ سپریم کورٹ کے لئے بڑا مشکل ہوجائے گا سپریم کورٹ اگر وزیراعظم ، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ کو ٹارگٹ کرے گی تو ایک قانونی پیچیدگی پیدا ہوجائے گی۔مجھے لگتاہے کہ حکومت جو ہے وہ چاہتی یہ ہے کہ عدالت جو ہے اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے ۔
یہ توہین عدالت کی جو کارروائی ہے اس پر وہ پھر ایک اور قانونی نقطہ نکالیں گے ۔پارلیمنٹ کے اندر جو گفتگو ہوتی ہے یا اس کی پروسیڈنگ ہوتی ہے اس پر آپ توہین عدالت نہیں لگا سکتے۔کیوں کہ یہ ایک آئینی شق ہے تو عدالت کے لئے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔

ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی بھی مسئلہ سیاستدان حل نہیں کرسکتے پارلیمنٹ سے مسئلہ حل نہیں ہوتااور وہ عدالت میں جاتااور عدالت بھی مسئلہ حل نہیں کرتی تو بحران شدید ہوتا تو اس کے بعد پھر جمہوری سسٹم ڈی ریل ہوجاتا ہے اور پھر فوج کومداخلت اور مجبور ہونا پڑتا ہے۔

شہباز شریف اور ان کی کابینہ اس نے ابھی تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ ریاستی موقف کی ترجمانی ہے۔پچھلے سال تو مئی کے مہینے میں شہباز شریف اسمبلی توڑنا چاہتے تھے لیکن ان کو اسمبلی نہیں توڑنے دی گئی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ آپ نے دس اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنا ہے ۔

 الیکشن کمیشن کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے11 اپریل کوسپریم کورٹ کو بتانا ہے کہ آ پ کو21 ارب روپے ملے یا نہیں ملے۔ آج وہ قرارداد پاس ہوگئی ہے پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا جو شیڈول ہے اس کو نظر انداز کریں آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا۔

الیکشن کمیشن11 اپریل کو سپریم کورٹ جائے گی اور وہ بتائے گی کہ ہمیں تو حکومت نے پیسے نہیں دیئے  وہ اٹارنی جنرل کو پوچھیں گے آپ نے پیسے کیوں نہیں دیئے اٹارنی جنرل کہے گا کہ پارلیمنٹ نے لاگو کردیا ہے کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ماننا۔اس کے بعد کیا ہوگا اس کے بعد جو الیکشن ایکٹ2017ء کی سیکشن 59 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ کہہ سکتا ہے ۔

حالات ایسے ہیں کہ ہم الیکشن کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہٰذا ہم الیکشن ایک دفعہ پھر ملتوی کررہے ہیں۔اس کے بعد وہ چیف الیکشن کمشنر پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں گے۔

اہم خبریں سے مزید