کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ اس بحران میں دھکیلنے میں جس کا کردار ہے اس کا نام عمران خان ہے،پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کیخلاف ریفرنس پر حکومت کی سطح پر بات نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کے ججوں کیخلاف ریفرنس کی با ت ن لیگ کے اندر پارٹی سطح پر ہورہی تھی، ماہر قانون رشید اے رضوی نے کہا کہ چھ ججوں نے دو منٹ بیٹھ کر جانبدارانہ فیصلہ کیا جو کسی نہ کسی مرحلہ پر چیلنج ہوسکتا ہے۔ ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ حکومت تین والے بینچ کو یا چار والے بینچ کو جواب دہ ہے ۔اگر چار رکنی بینچ اسی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردے تو اس کا کیا بنے گا۔کل کو کوئی بھی اقلیتی descendingنوٹ ہوگا حکومت اس پر عمل کیا کرے گی۔اگر کوئی بینچ کہتا ہے پھانسی دے دیں اوردوسرے دو لوگ کہتے ہیں نہ دیں تو دو لوگوں کے کہنے پر اس کو چھوڑ دیا جائے۔ اطہر من اللہ کے بعد کیا وضاحت چاہئے بار بار حکومت کو موجودہ بحران کا مورد الزام نہ ٹھہرائیں ۔فل کورٹ کیوں نہیں بنائی گئی فل کورٹ بنے گی توکیوں اسمبلی توڑی گئی تھی صحیح ٹوٹی یا نہیں ٹوٹی وہ ڈسکس ہوگا۔سوموٹوکی طاقت جو غلط استعمال ہوئی ہے پوری سپریم کورٹ بیٹھے گی تو وہ بھی اس پر کوئی ایکشن ریفر کرے گی۔کیا اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد تھے یااس کے پیچھے کسی کو انصاف دینا تھا۔ہم بھی پونے چار سال انتخابات کی تاریخ مانگتے رہے ہیں اس وقت تو سوموٹو نہیں ہوااب کیوں کہ لاڈلے کو انتخابات چاہئیں ۔اس بحران میں دھکیلنے میں جس کا کردار ہے اس کا نام عمران خان ہے۔آج کے جو انٹیلی جنس چیف ہیں ان کو ایک بڑے دہشت گرد کو پکڑنے پر شاباش مل رہی ہے۔ اس وقت کے انٹیلی جنس چیف جنرل فیض کوشاباش ملتی تھی کہ میرے مخالف کو تم نے اچھا کیا اندر دے دیا ہے تم نے جج کی ویڈیو بنالی ہے۔ اب پاکستان کے ادارے جس کام کے لئے ہے اس کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور وہ اپنا کام کررہے ہیں۔ہمیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے ہم ایک آئینی حکومت ہیں اور ہمارے پیچھے سارے ادارے کھڑے ہیں۔دہشت گردی جو ختم ہوچکی تھی وہ دوبارہ سرکیوں اٹھا رہی ہے چار سال میں نیشنل ایکشن پلان پر ایک ٹکے کا عمل نہیں کیاگیا۔کے پی کے کا انسداد دہشت گردی کا ادارہ کرائے کی عمارت میں قائم ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان پر کوئی اجلاس ہوا ہوکوئی ایپکس کمیٹی اجلاس ہواہو۔آپ کوئی بیانیہ بناتے ہیں یا کوئی پالیسی بنانی ہوتی ہے تو اس کے لئے آپ کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینا پڑتا ہے۔ایپکس کمیٹی کے ہم نے اجلاس کئے اس میں تمام جماعتوں کو پی ٹی آئی سمیت بلایا گیامگر وہ شریک نہیں ہوئی۔الیکشن کا معاملہ ایک آئینی اور قانونی معاملہ ہے وہ عدالت میں بھی اس کے بعد اس کا فیصلہ سیاستدان ہی کریں گے۔الیکشن وقت پر ہوں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کیخلاف ریفرنس پر حکومت کی سطح پر بات نہیں ہوئی،سپریم کورٹ کے ججوں کیخلاف ریفرنس کی با ت ن لیگ کے اندر پارٹی سطح پر ہورہی تھی، چیف جسٹس کے کچھ اقدامات سے پلڑے کا جھکاؤ ایک طرف ہونے کا شائبہ پیدا ہورہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے، سپریم کورٹ کے ججز اور بار کونسلز بھی چیف جسٹس کے کنڈکٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کررے ہیں، انہی حالات کو دیکھتے ہوئے ہم بار بار چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کررہے تھے۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں، عدالت کو اعتماد سازی اور غلطیوں کی تصحیح خود کرنا ہوگی، عدالت یہ کام نہیں کرتی اور تصادم کا خطرہ ہے تو کیا کیا جائے، یہ معاملہ چیف جسٹس نے درست کرنا ہے اگر وہ درست نہیں کرتے تو ایک طرف ہوکر کسی اور کو کرنے دیں، موجودہ صورتحال میں تناؤ سے بچنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو بات چیت کرنا ہوگی۔