کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں میزبان حامد میر سےگفتگوکرتے ہوئے بیرسٹر ظفراللہ نے تجویز پیش کی ہے کہ شہباز شریف کو چاہئے کہ اگلے جمعہ عمران خان کو افطار پر بلوالیں،عابد زبیری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف بلائیں تو عمران خان کو افطاری پر ضرور جانا چاہئے، حنا جیلانی نے کہا کہ عمران خان ڈائیلاگ چاہتے ہیں تو انہیں شہباز شریف کے پاس جانا چاہئے، چیئر پرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی نے کہا کہ عدالتوں کو منتخب نمائندوں پر توہین عدالت لگاتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے، کسی عدالت کو سیاسی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، توہین عدالت کے معاملہ پر عدالت کو فوری ردعمل نہیں دینا چاہئے، یہ فیصلہ کرنا عدالت کا اختیار ہے کہ کون سا بیان توہین ہے کون سا نہیں ہے، عدالتوں کو توہین کے معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ایسی تقاریر جس میں کسی عدالت کی کارکردگی پر بات کی جائے وہ تنقید توہین نہیں سمجھی جانی چاہئے۔حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل ابھی قانون نہیں بنا اس لیے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا، عدالتوں کے پاس کوئی قانون بننے سے پہلے اسے اسٹرائیک ڈاؤن کرنے کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ ایسی کسی بھی پٹیشن کو سنتی ہے تو اپنی غیرجانبداری پر سمجھوتہ کرے گی، قانون بننے کے بعد اس کی آئینی پوزیشن کا جائزہ لینا عدالتوں کا کام ہے، عدالتوں کے اختیارات اپنی جگہ پارلیمنٹ کے بھی اختیارات ہیں، عدالتیں اور پارلیمنٹ اپنی اپنی جگہ ضد کرنا چاہیں تو ضدبازی چل سکتی ہے۔حنا جیلانی نے کہا کہ حسبہ بل پر سپریم کورٹ کی ایڈوائزری رائے تھی وہ عدالتی آرڈر نہیں تھا، افتخار چوہدری نے ایڈوائزری نوٹ میں حسبہ بل پر جو مثالیں سیٹ کی تھیں انہیں آج نہیں مانا جارہا۔ حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمان میں آئینی کنونشن میں شرکت کر کے کوئی غلطی نہیں کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس معاملہ پر وضاحت نہیں کرنی چاہئے تھی، یہ پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں آئینی کنونشن تھا اور ججز مختلف کنونشنز میں جاتے رہتے ہیں، پارلیمنٹ میں کنونشن پہلے ہوا جبکہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بعد میں ہوا، جج صاحبان این جی اوز کے منعقدہ کنونشن میں بھی جاتے ہیں، آئین کی گولڈن جوبلی پر پارلیمان میں کنونشن کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے، شکر ہے کسی کو اس آئین کی پچاسویں سالگرہ منانے کا خیال آیا۔