• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہد محمود

نامساعد حالات کا سامنا کسی نہ کسی موڑ پر سب کو کرنا پڑ سکتا ہے۔آج کی نوجوان نسل اپنے ملک و قوم سے بہت شاکی رہتی ہے۔ حد سے زیادہ پریشان ہونے سے آپ میں کسی کام کو انجام دینے کی سکت نا پید ہو جاتی ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی انسان کے لیے مضر ہوتی ہے۔ زیادہ کھانا، زیادہ سونا، زیادہ سوچنا، زیادہ بولنا، زیادہ ہنسنا، زیادہ رونا، کوشش کریں کہ ہر کام اور ہر چیز کو میانہ روی کے ساتھ اختیار کریں۔ خواب دیکھنا بند کر دیں۔ راتوں رات ترقی کرنے کا خواب , یہ فکری کمزوری در اصل جذبہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ان نوجوانوں میں سرایت کررہی ہے۔ 

بدقسمتی سے یہ اپنے اُوپر بھروسہ کرنے اور اپنی محنت ولگن سے آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں کی انگلی پکڑکرچلنے اور کاندھے استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس عمل سے محنت ، لگن اور جہدِ مسلسل جیسے سنہرے اصولوں کو زبردست ٹھیس پہنچتی ہے۔جو اپنی خوابوں کی دنیا میں زیادہ وقت گزارتا ہے تو وہ اصلی دنیا میں فراغت کے اوقات بسر کر رہا ہوتا ہے اور یہ ایک دفعہ پھر وقت کا ضیاع ہے۔ دیوار پہ لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے لیکن اس میں سچ کتنا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اکثر جو آپ دیکھتے ہو وہ اشتہار ہوتے ہیں، سچ دیواروں پہ تمہیں نہیں ملے گا۔ اسے ڈھونڈنا ہو گا۔ ایسے نوشتوں پہ یقین کرنے سے پرہیز تمہیں ہلاکت سے بچائے گا۔

یاد رکھیں کہ بارش کے وقت پانی میں عکس دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ آسمان خشک ہونے کا انتظار کریں۔ اپنے خیالات کو کنٹرول کرنا سیکھیں اور کسی کی تلخ بات کے جواب میں بھی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ تحمل و برداشت سرکش نفس کو زیر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ خود کو ملامت کرتے رہنا یا اپنے عمل پر بار بار پچھتاتے رہنے سے گزرا ہوا وقت تو واپس نہیں آئے گا، البتہ آپ کی زندگی سلجھ جائے گی۔ غلطیاں سدھار کر آگے بڑھیں۔جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کی غلطیاں درگزر کریں، آپ کی خطائیں معاف کر دیں اور اللہ کریم بھی آپ کو معاف فرما دے تو دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔ 

کسی کے خلاف نفرت، غصے یا انتقام کے جذبات دل و دماغ میں رکھ کر آپ خود کو اور اپنی صلاحیتوں کو بیڑیوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ صلاحیتوں کو غصہ، نفرت و انتقام جیسے جذبات اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج سے بچا کر زندگی میں آگے بڑھیں۔عملی زندگی میں اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنوں اور دوسروں کی غلطیوں سے سیکھے ہوئے اسباق / تجربے کو مدنظر رکھیں۔ غلطی پر ڈٹ جانا یا غلطیاں دہرانا بڑی غلطی ہے۔

غور و فکر و مشاورت سے اپنے مقاصد طے کیجئے اور پھر ان کے حصول کی منصوبہ بندی کیجئے۔ اس پر اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق عملدرآمد کیجئے۔ اگر آپ ناکام ہوتے ہیں تو اپنی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کر کے دوبارہ کوشش کیجئے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ اپنے وقت پرقابو پانا نہایت ضروری ہے۔ بس اللہ کی ذات کے سوا کسی بھی شے سے امید نا رکھیں اور قدم بڑھاتے رہیں۔

ہر طرح کے حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کریں۔ گلے شکوے کو اپنی مختصر سی زندگی میں سے نکال کر مقدور بھر کوشش کیجئے کہ جو بھی صلاحیتیں اور نعمتیں و وسائل اللہ کریم نے آپ کو عطاء کئے ہیں ان سے جتنا ہو سکے نہ صرف خود مستفید ہو بلکہ اپنے عزیز رشتہ داروں، حلقہ احباب، گلی محلے، دیہات، گوٹھ، گاوں، شہر، ملک و قوم کی بھلائی و بہتری کے لئے کام کیجئے۔ اسی طرح جب بہت سی انفرادی کوششیں شروع ہوں گی تو اجتماعی بھلائی، بہتری و خوشحالی کی جانب معاشرہ گامزن ہو جائے گا۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ کوشش کا آغاز اپنی ذات سے کیا جائے۔متحرک رہو اور ہر کام کو وقت پر کرنے کو اپنا شعار بناؤ۔ نہ تو لوگوں کی تنقید پر کان دھرو اور نہ ہی دوسرے لوگوں پر کسی قسم کی تنقید کرو۔وسروں کی جانب دیکھنے کی بجائے، کسی سے امید لگانے کی بجائے اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔