انیلہ افضال ایڈوکیٹ
پاکستان کو اس وقت جس بڑے چیلیج کا سامنا ہے، وہ ہے بدعنوانی ہے،جس کا خاتمہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے یہ ایکایسا زہر ہے جو اداروں کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے، اس سے قومی اداروں کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ اب شفافیت کا دوردورہ نہیں رہا ،جس کی وجہ سے بدعنوانی معاشرے کا ایک قابل قبول اور عام عنصر بنتی چلی گئی۔
آج لالچ و حرص سماج میں اس قدر گہرائی سے پیوستہ ہے کہ انفرادی اور قومی فیصلہ سازی میں دیگر تمام اہم اخلاقی پہلوؤں کے ساتھ مذہبی اقدار تک کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ اس کا حتمی مقصد کم سے کم وقت میں ناجائز طریقوں سے اضافی پیسوں کا حصول ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ متاثر نوجوان طبقہ ہے جو ملکی حالات اور ترقی کے مواقع کی کمی پر اپنے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتا ہے۔
پورے ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں جاری امتحانات کے ساتھ نقل کا موسم بھی لوٹ آیا ہے۔ حسبِ توقع قومی مبحاثے کا محور امتحان لینے اور دینے والوں کی بے ضابطگیاں بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ امتحانی بورڈز کی نااہلی اور بدعنوانی بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جو نہ صرف ہمارے نظامِ تعلیم کے اس بدنما پہلو پر چُپ سادھے رہتے ہیں بلکہ اس عمل میں سہولت کار بھی بن جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امتحانات میں نقل ہماری بدعنوانی کی ثقافت کا لازمی جزو بن چکی ہے۔
استاد کا رشوت لے کر طلبا کو پاس کرنا ہی بدعنوانی نہیں بلکہ اس کا اپنی قابلیت کے مطابق طلباء کو نہ پڑھانا اور طلباء پر محنت نہ کرنا بھی بدعنوانی ہی کہلائے گا۔ بدعنوان عناصر کی ناجائز دولت نے معاشرے میں تعلیمی تفریق کی وہ انتہا پیدا کی ہے کہ جسے کم کرنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض سرکاری ملازمین کے بچے بھی انتہائی مہنگے اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں، مگر ان سے بھی ذرائع آمدن نہیں پوچھے جاتے ۔
20 اور 22 گریڈ کے افسران کے چار چار بچے لندن امریکہ کی ایسی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے ایک ایک سمسٹر کی فیس 60 ہزار ڈالرز تک ہے، جبکہ والد صاحب حکومت کے انیسویں گریڈ کے ملازم کے طور پر ماہانہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور بیرون ملک پڑھنے والے بچوں پر سالانہ 5 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور پوچھے گا بھی کون؟ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے۔دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نااہل اشخاص سب سے زیادہ بدعنوان ہیں۔
معاشرے کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور بہتر طرز حکمرانی کا نظریہ پھیلانے میں تعلیمی ادارے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں، اس سے چھٹکارے کےلئے معاشرے کے تمام شعبوں بالخصوص تعلیمی اداروں کی حمایت نہایت ضروری ہے ، طلباء کا کردار اس حوالے سے اہم ہے۔ انہیں اس ناسور کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی کیوں کہ یہ ایک قومی خیانت ہے، اس کی وجہ سے کوئی معاشرہ ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔
بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے سماجی شعور بیدار کرنا وقت کا تقاضا ہے،اس نا سور کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر مکتبہ فکر کے افراد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس پر قابوپانے کے لئے نچلی سطح سے اوپر تک عزم اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے، نیک نیتی، دلجمعی اور محنت سے اداروں کو کرپشن سے پاک کرنے کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں ،جو سماجی ،سیاسی،اقتصادی اور دیگر محرکات کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں وہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے بہت سےنوجوان ہیں جو اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس نئے تصورات کی کمی نہیں اور خاصے متحرک بھی ہیں۔
یہ شاندار ذہنی اور شعوری قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں ایک آگاہانہ احساس ذمہ داری ہے،وہ فطری طور پر اصلاح پسنداورعدل و انصاف کا خواہاں ہیں، لہٰذا ایسےنوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی جو بدعنوانی کی دیوار کو دھکا دینے کی زبردست قوت رکھتے ہیں۔ عزمِ صمیم ، استقامت اور یقینِ محکم سے ارادہ کر لیا جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ دنیا کی کسی بھی بدعنوانی اوربرائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ،تاہم اس حوالے سے بعض شعبہ ہائے زندگی کو اولیت حاصل ہے، اس ضمن میں کرپشن کے تدارک کے لیے تعلیمی نصاب کا کردار نہایت اہم قرار دیا جاسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ تعلیم ایک پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے ، قوموں کو انقلابی تبدیلی سے روشناس کرایا جاسکتا ہے ، قوم کے افراد کی مثبت تربیت اور بہترین نشوونما کی جاسکتی۔کسی بھی اعلیٰ مقصد کا حصول تعلیم کے ذریعے ممکن ہے ،مگر تعلیم کو موثر بنانے کے لیے تعلیم نصاب کی تشکیل اولین تقاضا ہے۔ الغرض ہر زاویے سے ہمارا تعلیمی نصاب بدعنوانی کے سدِ باب کا عکاس ہونا چاہیے ،تاکہ دورانِ تعلم نسلِ نو کے ذہن میں بدعنوانی کے نقصانات کی اصل تصویر نمایاں اور واضح ہو ۔
بچوں کے ذہنوں میں بدعنوانی کے خلاف زیادہ سے زیادہ مواد کی اشاعت کا اہتمام کیا جانا چاہیے، اس سلسلے کو چھوٹی سے بڑی جماعتوں تک جاری رکھنا چاہیے اور خاص طور پر تعلیم مکمل کرنے والے طلبا کے لیے کالجز ،یونی ورسٹیوں میں کورسز اور سیمینار کا نعقاد کرکے ملک و قوم اور اداروں میں کرپشن سے پاک خدمات سر انجام دینے کی تربیت دی جانی چاہیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بدعنوانی کو انسانیت کے لیے ضرررساں سمجھا جائے اور چھوٹی سی چھوٹی سطح پر بھی اسےنظر انداز نہ کیا جائے۔ اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ اس کا خاتمہ کسی بھی ملک اور معاشرے کاا ستحکام ہے ۔ اس میں بقا کا راز مضمر ہے۔