اسلام آباد ( فاروق اقدس / تجزیاتی رپورٹ) ایک طرف تو پاکستان کی وزارت خارجہ آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں بھارت کے شہر ’’گووا‘‘ میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی شرکت کے انتظامات میں مصروف ہے تو دوسری طرف بھارت سے اس حوالے سے آنے والی خبریں باعث تشویش ہیں۔
دو دن قبل بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ دہشتگردی میں ملوث پڑوسی ملک سے بات چیت انتہائی مشکل ہے۔
یہ بات انہوں نے پانامہ کے دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ انہیں سرحد پار دہشت گردی روکنے، اس کی حوصلہ افزائی اور اسے سپانسر نہ کرنے کا عزم کو پورا کرنا ہوگا۔ تاہم ہمیں امید ہے کہ ایک دن ہم اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔
شنگھائی کی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر بلاول بھٹو سے اپنی ملاقات کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے براہ راست کوئی واضح جواب دینے کے بجائے کہا کہ اس پڑوسی ملک کے ساتھ بات کرنا مشکل ہے جو ہمارے خلاف دہشتگردی کرتا ہے، جبکہ بھارت کی بعض تنظیموں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے اور جس کی ابتدا بھی کردی گئی ہے اور بدھ کو ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی مرکزی سڑکوں اور بازاروں میں پاکستانی وزیر خارجہ کی تصاویری پوسٹر چسپاں کر دیئے گئے جس پر کراس لگا کرNo Entryبھی لکھا ہوا ہے۔
اندور کانگریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ یہ وہی ملک ہے جس نے ہمارے ملک میں شدت پسندی کو تقویت دی ہے۔ انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کی آمد پر عام شہریوں سے احتجاج میں شرکت کی اپیل کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں ہونے والی دہشتگردی میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان بھی اس احتجاج میں شریک ہونگے۔
تاہم بھارت میں سنجیدہ طبقات جن میں دانشور، تجزیہ نگار اور مبصرین جو دونوں ملکوں کے درمیان پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں وہ بھارت میں پاکستان کے وزیر خارجہ کی آمد سے نہ صرف توقعات رکھے ہوئے ہیں بلکہ دہلی حکومت کو یہ تجویز بھی کر رہے ہیں کہ جے شنکر پاکستانی ہم منصب سے ملاقات بھی کریں اور ان کی آمد کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دو طرفہ تعلقات مثبت بنائیں۔
یاد رہے کہ وزیر خارجہ بھارت کے شہر ’’گوا‘‘ میں آئندہ ماہ ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے جو چار اور پانچ مئی کو ہوگا۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت سے قبل اتحادی جماعتوں سے حکمت عملی وضع کرنے کیلئے مشاورت کریں گے۔
تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ دو ماہ قبل ہی پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے وزارت خارجہ کو پہنچا دیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اب جب پاکستان نے سرکاری طور پر اپنے میزبان ملک کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو باضابطہ طور پر اجلاس میں شرکت کے بارے میں آگاہ کردیا ہے تو وزارت خارجہ نے اس حوالے سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو بھارت میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران جہاں سائیڈ لائن ملاقاتوں میں تنظیم کے رکن ملکوں انڈیا کے علاوہ چین، پاکستان، روس اور چار وسطی ایشیائی ریاستوں کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سطحی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
وہیں وہ اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ ملاقات باضابطہ نہیں بلکہ رسمی ہوگی۔
بلاول بھٹو نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت میں قیام کے دوران اپنے اس اولین دورےمیں عالمی سطح پر معروف صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری اور چادر چڑھائیں گے۔
بلاول بھٹو کی اس خواہش کے بارے میں وزارت خارجہ کی جانب سے بھارتی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے تاہم اس بارے میں ابھی کوئی جواب نہیں آیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بلاول بھٹو کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری بھی اپنے دور اقتدار میں دورہ بھارت کے دوران حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دے چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری کی طویل اسیری کے زمانے میں محترمہ بینظیر بھٹو نے خصوصی طور پر ان کی رہائی کیلئے حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ پر دعا بھی مانگی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلاول بھٹو گزشتہ 12 سال کے طویل عرصے میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہوں گے جو بھارت کا دورہ کریں گے۔
دوسری طرف پاکستان میں اپوزیشن (پاکستان تحریک انصاف) کے مرکزی راہنما بلاول بھٹو کے دورے پر جانے سے قبل ہی ’’روایتی لفظوں‘‘میں تنقید کررہے ہیں۔