کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں پی ٹی آئی پر انتخابی ٹکٹوں کے فروخت کے الزامات کے حوالے سے 2018 سے اب تک کے مختلف کلپ چلاتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ عمران جو الزام لگارہے ہیں خود ہی جرم کررہے ہوتے ہیں؟
ثاقب نثار کا بیٹا جس شخص سے ڈیل کررہا ہے نظرثانی شدہ لسٹ میں اسی کو شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 137 کا ٹکٹ ملا، پی ٹی آئی نے چند گھنٹوں میں تحقیقات کرکے ثاقب نثار اور ان کے بیٹے کو کلین چٹ بھی دے دی۔
شاہزیب خانزادہ نے لائیو پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کو موقف دینے کی دعوت بھی دی تاہم کوئی رہنما تیار نہ ہوا، شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے خود مانا 2018 کے الیکشن ٹکٹ کے لئے پیسے چلے، پانچ سال بعد خود ہی اپنی بات سے پیچھے ہٹ گئے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو صرف اپنے ہینڈلرز کیلئے کیس بنانے کیلئے کررہی ہے، ڈکٹیشن کے ساتھ آپ مذاکرات نہیں کرسکتے۔ پروگرام کی تفصیلات کے مطابق شاہزیب خانزادہ: یہ آپ کا موقف ہے مگر آپ مذاکرات کررہے ہیں اس کا مطلب ہے آپ اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹیں گے اور تحریک انصاف بھی کہیں نہ کہیں پیچھے ہٹے گی۔
خان صاحب نے بھی فائنل پوزیشن لے لی ہے کہ چودہ مئی سے پہلے آپ نے اسمبلیاں نہیں توڑیں تو وہ سپریم کورٹ پر rely کریں گے ، سپریم کورٹ کے حوالے سے آپ لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ لوگوں نے constitutionaly اور legally اپنے آپ کو protect کرلیا ہے، ووٹ آف کانفیڈنس بھی لے لیا ہے اس کے علاوہ جو کیس ارب روپے تھے اسے پارلیمنٹ نے مسترد بھی کردیا ہے۔
معاملہ کہیں نہیں جارہا، آپ لوگوں کی extreme position ہے اورآپ کو لگتا ہے سپریم کورٹ بھی بیک فٹ پر ہے؟ احسن اقبال: میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو صرف اپنے ہینڈلرز کیلئے کیس بنانے کیلئے کررہی ہے، عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ حکومت نے چودہ مئی تک اسمبلیاں نہ توڑیں تو میں یہ کردوں گا، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ it is my way or highway اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو میں اس چیز سے باہر ہوں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اس قسم کی ڈکٹیشن کے ساتھ آپ مذاکرات نہیں کرسکتے کہ آپ pre conditions لگائیں اور میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ دیکھئے مذاکرات اس وقت ایک طرف جہاں تاریخ پر ضروری ہیں اس سے زیادہ ضروری یہ ہیں کہ اگلا الیکشن کس طرح پاکستان میں غیرمتنازع ہو۔
شاہزیب خانزادہ: مگر ان کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے اور عدالت نے آپ لوگوں کے مذاکرات تک اس فیصلے کو ٹالا ہوا ہے، عمران خان یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ my way or highway وہ کہہ رہے ہیں my way or supreme courtʼs way آپ نے دونوں میں سے ایک decide کرنا ہے کہ آپ نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ راستہ نکالنا ہے یا سپریم کورٹ جو کہہ رہی ہے اس راستے پر جانا ہے؟
احسن اقبال: وہ سپریم کورٹ کا راستہ بھی عمران خان کا راستہ ہے، it is either Supreme court and Imran Khanʼs way or Highway بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ جو اس وقت کیس کررہی ہے اس وقت تمام لوگوں نے سپریم کورٹ کو کہا تھا کہ آپ تسلی کے ساتھ سب کا موقف سنئے، سیاسی جماعتوں کو نہیں سنا گیا، بار کونسلز کو نہیں سنا گیا، صرف پی ٹی آ ئی کے وکیل کو سن کر سپریم کورٹ نے عجلت میں ایک فیصلہ دیدیا ، اب وہ فیصلہ ایک ہڈی بنا ہوا ہے سارے معاملہ میں کیونکہ وہ غلط فیصلہ ہے، آپ ایک صوبے کو کس طریقے سے پوری فیڈریشن کے اوپر تسلط دے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کس طرح پاکستان کے باقی وفاقی یونٹس کی رائے کو پاکستان کے آئین کی منشاء … سپریم کورٹ نے جوفیصلہ دیا ہے خود اس کے اکثریتی ججوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا، چار تین کا جو فیصلہ ہے جس کی پارلیمنٹ نے توثیق کی ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب ایک اقلیتی فیصلے کے ذریعہ قوم میں نیا بحران پیدا کررہے ہیں، اس سے بھی اہم بات یہ کہنا چاہوں گا کہ کل جو سماعت ہونے جارہی ہے جس میں سپریم کورٹ پروسیجر کے حوالے سے جو پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے، میں آپ سے التجا کروں گا آپ چونکہ تحقیق کرتے ہیں مصطفی امپیکس کیس کا ذرا فیصلہ پڑھئے جس میں ثاقب نثار نے لکھا ہے اس میں کتنی تفصیل کے ساتھ انہوں نے لکھا ہے کہ شخصی جو صوابدیدی اختیارات ہیں وہ نہ وزیراعظم کے آئین کے مطابق ہیں نہ وزیراعلیٰ کے آئین کے مطابق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب اگر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات حرام ہیں تو مجھے بتایئے کہ وہ کون سی فقہ ہے جس کے تحت چیف جسٹس کیلئے وہ حلال ہیں۔
شاہزیب خانزادہ: مصطفی امپیکس کیس کی جو آپ مثال دے رہے ہیں، ہمارے ناظرین کے علم میں ہے کہ ہم بار بار یہ معاملہ رکھ چکے ہیں اور تفصیل و تحقیق کے ساتھ رکھ چکے ہیں مگر اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نہیں مان رہی ہے، وہ نہیں مانیں گے توآپ لگوں نے نوٹیفائی تو کردیا مگر اب اس پر عمل کیسے ہوگا؟، کیا دو ججز خود بیٹھ جائیں؟ کیونکہ کمیٹی تین سینئر ججوں کی بننی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار صاحب خود بیٹھ جائیں اس حوالے سے، وہ کیا کریں؟
احسن اقبال: اس وقت پاکستان کی جو ریاست ہے،کس بھی جمہوری ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں، جہاں پارلیمنٹ کی ہم خودمختاری کی بات کرتے ہیں تو ہماری جو اسکیم ہے اس کے اندر جیوڈیشری یہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کی خودمختاری پر جیوڈیشل ریویو ہے اور جیوڈیشل ریویو اس بات کا ہے اگر پارلیمنٹ آئین کی اسکیم سے تجاوز کرے گی تو عدالت اس حکم کو اس قانون کو ساقط کرسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر جیوڈیشل ریویو پارلیمنٹ کے اوپر ہے تو کیا وہ جیوڈیشل ریویو چیف جسٹس کو یا عدلیہ کو خداانخواستہ شہنشاہ کے اختیارات دیتا ہے کہ اگر جیوڈیشری transgrace کرے آئین کے اختیارات کے ساتھ، وہ آئین کو ری رائٹ کرنے کی کوشش کرے تو پھر اس کے اوپر پارلیمنٹ جو ہے وہ بھی یقینا نظر رکھ سکتی ہے، یہ ایک بحران ہے جس کی طرف چیف جسٹس کی ضد دھکیل رہی ہے۔
شاہزیب خانزادہ: اگر کل یہ فیصلہ دیدیا کہ یہ قانون ٹھیک نہیں ہے، اگر اس قانون کو مسترد کردیا، پہلے ہی عملدرآمد تو روکا ہوا ہے اگر مسترد نہ بھی کریں اور لٹکا کر رکھیں تب بھی آپ لوگ کیا کرلیں گے، میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ solution کیا ہے، کیا آپ لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ باقی دو ججز ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود وہ اس حوالے سے کوئی initiative لے لیں کیونکہ وہاں سے کچھ بھی نہیں آیا ہے۔
آپ لوگوں کا کیا لائحہ عمل ہے، کیونکہ معاملہ تو لٹکا ہوا ہے، قانون بن گیا ہے عملدرآمد نہیں ہورہا ہے، بنچ اس دفعہ بھی چیف جسٹس نے ہی بنایا ہے؟
احسن اقبال: ہم دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ جو جیوڈیشل نظام کی بیک بون ہے وہ تنازع کا مرکز نہ بنے، اسی لیے ہم نے بار بار چیف جسٹس صاحب سے کہا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا ہے تو آپ کو کس چیز کی گھبراہٹ ہے کہ آپ فل کورٹ نہیں بناتے، کیا آپ کے برادر ججوں نے آئین کا حلف نہیں اٹھایا ہوا، کیا وہ آئین کی پاسداری پر آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، یہ صاف اس بات کا ثبوت ہے کہ چند مخصوص جج ہیں جن کو خود یہ اعتماد نہیں ہے کہ پوری سپریم کورٹ ان کے موقف کی تائید کرے گی اور وہی جو ہینڈلرز ہیں عمران خان کے، عمران خان کو جلد بازی یہ ہے کہ اس کے آدھے ہینڈلرز ریٹائر ہوگئے ہیں باقی ستمبر تک وہ سمجھتا ہے باقی آدھے ہینڈلرز بھی چلے جائیں گے تو ستمبر سے پہلے پہلے میں ہرقیمت پر الیکشن کروالوں اور اس کے عوض وہ ان کو کیا دے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے اس نے ان کو آفر کیا ہو کہ میں آپ کی ریٹائرمنٹ ایج بڑھادوں گا، اللّٰہ جانے اندر کا معاملہ کیا ہے لیکن اس کھیل کے نتائج وہ بھی بھگت رہا ہے۔
شاہزیب خانزادہ: آپ لوگوں کو پتا ہے نا دو تین مہینے میں کوئی فرق نہیں پڑنا ہے، اس کے باوجود آپ کا بھی اکتوبر پر اصرار اسی لیے ہے، آپ بھی چاہتے ہیں ستمبر گزر جائے، جس طریقے سے عمران خان صاحب چاہتے ہیں کہ ستمبر نہ گزرے؟
احسن اقبال: ہمارا اکتوبر پر اصرار کسی ہینڈلر کی وجہ سے نہیں ہے، ہمارا اکتوبر پر اصرار آئینی مدت جو اسمبلیوں کی ہے ان کے مکمل ہونے پر ہے، جبکہ عمران خان کا اصرار کہ ستمبر سے پہلے ہرقیمت پر الیکشن ہو وہ اس لیے ہے کہ وہ اپنے ہینڈلرز کے ذریعہ دوبارہ شب خون مارنا چاہتا ہے انتخابات کے اوپر۔ اگر ان کی خواہش ہے کہ وہ دوبارہ ہینڈلرز کے ذریعہ الیکشن جیتناچاہتے ہیں، بیک ڈور کے ساتھ الیکشن میں دھاندلی کر کے آنا چاہتے ہیں تو ان کی سازش کیلئے ہم ایندھن بڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
شاہزیب خانزادہ: پھر آپ پرسنلی، ظاہر ہے آپ سینئر رہنما ہیں، معاملات کو سیاست کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں، اپنی پارٹی کو بھی سمجھتے ہیں، آپ کل کے مذاکرات سے کوئی نتیجہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ایسا حل نکل آئے گا جس پر دونوں جماعتیں راضی ہوں گی یا کچھ بھی حل نہیں دیکھ رہے ہیں ، یہ صرف اس لیے ہورہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا ہوا ہے کہ آپ مذاکرات کریں؟
احسن اقبال: ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں گے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کی بھی آواز ہے، پاکستان میں آپ کی دو اسمبلیاں توڑنے کی حماقت کی قیمت یا سزا سندھ اور بلوچستان کے عوام یا قومی اسمبلی نہیں دے سکتی، اگر آپ سنجیدہ ہیں تو اکتوبر میں جب آئینی مدت مکمل ہوتی ہے اس پر پورے ملک میں اکٹھے انتخابات کیلئے آمادہ ہوں لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اگلے الیکشن کو کیسے غیرمتنازع کیا جائے تاکہ الیکشن کے بعد کوئی نیا تنازع نہ کھڑا ہو۔
شاہزیب خانزادہ: وہ نہیں مانیں گے، خان صاحب نے تو 14مئی کہا ہے مگر ان کی جو maximum flexibility ہوسکتی ہے آپ لوگوں کیلئے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ اگلا بجٹ دینے سے پہلے جائیں، یعنی آپ پندرہ بیس دن کی ہی 14مئی کے مقابلہ میں اوپر نیچے زیادہ سروائیو کرسکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ جو عمران خان آپ کے ساتھ کرگئے تھے، پورا کا پورا آئی ایم ایف کا پروگرام تباہ کرگئے تھے کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی کی، آپ بھی وہی کام کریں۔