اسلام آباد(رپورٹ… رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے عدالتی اصلاحات کے قانون سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023 کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے اس قانون پر حکم امتناع کے خاتمہ کی استدعا مسترد کردی اور حکم امتناع کو تاحکم ثانی برقرار رکھتے ہوئے آئندہ سماعت تک فریقین مقدمہ سے درخواستو ں پر جامع تحریری جواب طلب کرلیا ہے، عدالت نے پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کے سات سینئر ترین ججوں پر مشتمل لارجر بنچ کی تشکیل کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے بینچ سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو علیحدہ کرنے سے متعلق استدعا بھی مسترد کردی ہے جبکہ اس قانون سازی سے متعلق ہونے والی پارلیمانی کارروائی اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاستداں انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جوابدہ ہے، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا، سینئر جج اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، بعدازاںکیس کی مزید سماعت پیر8مئی تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل آٹھ رکنی لاجر بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو پاکستان مسلم لیگ(ن)کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین، پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک، پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیئر مین ایگزیکٹیو کمیٹی حسن رضا پاشا ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریما رکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ ریاست کے تیسرے ستون سے متعلق قانون سازی کا ہے، جسے سنجیدگی اور بالغ النظری کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، زیر غور قانون اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، اور اسکا تعلق عدلیہ کے اختیارات سے ہے۔چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وفاقی قانون سازی فہرست میںپارلیمنٹ کی قانون سازی کی حدو د وقیود مقرر ہیں،اس ملک کا مسلمہ قانون ہے کہ آئین کے بنیادی خدو خال نہیں تبدیل کئے جاسکتے ہیں، جمہوریت اور وفاقیت کے علاوہ عدلیہ کی آزادی بھی آئین کا بنیادی جز و ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے منافی قانون سازی نہیں کی جاسکتی ہے، زیر غور درخواستوں میں الزام لگایاگیا ہے کہ سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023کے ذریعے آئین کے بنیادی خد و خال سے متعلق قانون سازی کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بنچ سے علیحدہ کرنے سے متعلق استدعا مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ کسی جج کیخلاف شکایت یا ریفرنس دائر ہونے سے بحیثیت جج اسکا کام متاثر نہیں ہوتا ہے۔ انہوںنے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ مذکورہ کیس کے فیصلے میں طے کیے گئے اصولوں کی پچھلے کئی سالوں سے پیروی کی جارہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ کسی جج کے خلاف ریفرنس صدر کی جانب سے آتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کیخلاف پرائیویٹ لوگوں کی شکایات آتی رہتی ہیں۔ جج کیخلاف شکایت سے اسکے منصب پر فرق نہیں پڑتاہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک شکایت یا ریفرنس پر سپریم جوڈیشل جوڈیشل کونسل کی رائے نہیں آجاتی کسی جج کو عدالتی امور کی انجام دہی سے نہیں روکا جاسکتاہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ سیاسی معاملات نے ماحول کو آلودہ کردیا ہے،سپریم کورٹ کے ہر جج کی عزت ہے،سب عدالت کے فیصلوں کے پابند ہیں،اگر عدالت کے ججوں کی عزت نہیں کی جائیگی تو انصاف کیلئے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انہوںنے مزید کہا ہے کہ سیاسی شخصیات سپریم کورٹ سے انصاف نہیں بلکہ من پسند فیصلے چاہتی ہیں، اسی لیے پک اینڈ چوز کی بات کرتے ہیں۔ انہوںنے اس قانون پر حکم امتناع کے خاتمہ کی ستدعا سے متعلق کہاہے کہ عبوری حکمنامہ جاری رہیگا۔ تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس قانون سازی سے متعلق گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوچکا اور اب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 باقاعدہ ایک قانون بن چکاہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ کی پچھلی سماعت کا حکمنامہ عبوری نوعیت کا ہے،ہمارے آئین کا ڈھانچہ بنیادی خدو خال پر کھڑا ہے اور آئین کے بنیادی خدوخال تبدیل نہیں کیے جاسکتے ہیں،عدلیہ کی آزادی بنیادی خدوخال میں شامل ہے، دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق قانون سازی ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے یہ ایک Unique(منفرد)کیس ہے، ریاست کے تیسرے ستون سے متعلق قانون کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ آئین کے بنیادی خدوخال تبدیل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقدمہ پر فریقین سے سنجیدہ بحث کی توقع ہے، آپکو عدالت کوبہترین معاونت فراہم کرنی ہوگی، اس نکتے پر دیگر ملکوں کے فیصلوں کو بھی دیکھا جائیگا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپکوجواب کیلئے کتنا وقت درکار ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میرا جواب تقریباً تیار ہے، مزید دو دن چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہا 8مئی سے بینچ دستیاب ہے چاہیں تو آئندہ جمعہ کے روز بھی سماعت کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لینگے۔ انہوںنے کہا کہ یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی ہے کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے، الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ دوران سماعت پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین، حسن رضا پاشا ایڈوکیٹ نے بینچ سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو الگ کرنے کی استدعا کی اور موقف اپنایا کہ پچھلی سماعت پر معاملہ فل کورٹ میں زیر سماعت لانے کی استدعا کی تھی، تاہم عدالت نے ان کی یہ استدعا بھی مسترد کردی۔ حسن رضا پاشا کہنا تھا کہ عدالت سے استدعا ہے کہ کم ازکم اس عدالت کے سات سنیئر ترین ججوں پر مشتمل لارجر بنچ تشکیل دیا جائے جوکہ ان درخواستوں کی سماعت کرے،اس صورت میں کسی کو بھی بنچ پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کسی جج کیخلاف دائر ریفرنس یا شکایت کی بنیاد پر اسے کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس سے متعلق مقدمہ میں سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ ریفرنس یا شکایت پر سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک متعلقہ جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر ریفرنس سے متعلق بھی سپریم کورٹ نے یہی فیصلہ جاری کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لوگ حصول انصاف نہیں بلکہ من پسند فیصلے چاہتے ہیں، صوبہ ہائے پنجاب و خیبر پختونخوا میں عام انتخابات سے متعلق مقدمہ میں بھی کچھ ججوں کو بنچ سے علیحدہ کرکے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے اور پاکستان کا ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے۔ انہوں نے حسن رضا پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، پاشا صاحب، آپ نفیس آدمی ہیں، اپنے اردگرد سے معلوم کرائیں کہ آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں، جس پرحسن رضا پاشا نے کہا کہ کوئٹہ میں ملک کی تمام وکلاء تنظیموںنے جو قراردادیں منظور کیں اور جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہم نے آج اس عدالت کو اس سے آگاہ کردیا ہے،اگر عدالت نے بار کے موقف کا برا منایا ہے توہم اس پر آپ سے معذرت خواہ ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ جج آئینگے اور جائینگے، بارایسوسی ایشنوں نے اس ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ جس پر حسن رضا پاشا نے کہا کہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بار ایسوسی ایشن نے ہمیشہ عدلیہ کے ادارے کا تحفظ کیا ہے،ہم نے آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی لڑائی لڑی ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت سے پچھلی سماعت کے دوران اس قانون سے متعلق جاری کیا گیا حکم امتناع واپس لینے کی استدعا کی تو عدالت نے انکی استدعا مسترد کردی،جبکہ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ اس عدالت کو سمجھا تو دیں؟ کہ یہ قانون کیا ہے اور کیوں بنایا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت بینچ کے ججوں کی تعداد بڑھانے پر غور کرے تو چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ میں ججوں کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے،بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا احکامات جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر8مئی تک ملتوی کردی ۔