اسلام آباد (صالح ظافر) چین کو عالمی سطح پر غیر ممالک بالخصوص دوست ممالک کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی رکھنے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، تاہم 70؍ سالہ سفارتی تعلقات میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے پاکستان کی سیاسی قوتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں اور ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لیجائیں تاکہ ملک مقامی سطح پر ترقی اور چین کے ساتھ معاشی سطح پر مل کر ترقی کر سکے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی دوستی گہری اور آزمودہ ہے۔ دوسری مرتبہ پاکستان کو یہ مشورہ اسلام آباد دورے پر آئے مہمان چائنیز وزیر خارجہ چن گانگ نے دیا ہے۔ دورے کے دوران انہوں نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات کی اور پاک افغان چین سہ فریقی مذاکرات میں اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیاسی سطح پر مل کر کام کرنے، انسداد دہشت گردی، تجارت اور رابطہ کاری کے حوالے سے ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز رہی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، چین نے پاکستان کو پہلی مرتبہ 1971ء میں اُس وقت مشورہ دیا تھا جب عوامی لیگ نے ملک کے مشرقی حصوں میں شورش پیدا کرنا شروع کی تھی۔ اُس وقت چائنیز وزیراعظم چو این لائی نے پس پردہ سفارتی کاری کے ذریعے پاکستان میں حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کے دشمن اسے توڑنے کیلئے مذموم سازشیں کر رہے ہیں، اسلئے سیاسی مسائل حل کیے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب دوسری مرتبہ چین کی طرف سے مشورہ کھل کر پیش کیا گیا ہے اور سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے تنازعات پر امن انداز سے طے کرلیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے کی طرف سے اس حوالے سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے تاہم عمران خان کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔ ذرائع کے مطابق، جس وقت چائنیز وزیر خارجہ اسلام آباد میں مذاکرات میں مصروف تھے اس وقت پی ٹی آئی کے رہنما ریڈ زون کے قریب نہیں بلکہ راولپنڈی میں شورش میں مصروف تھے اور یہی مناظر لاہور اور پشاور میں بھی نظر آئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2014ء میں جب چائنیز صدر شی جن پنگ پہلی مرتبہ پاکستان آنے والے تھے اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ سی پیک کے تاریخی اربوں ڈالرز کے معاہدے پر دستخط ہونا تھے، اس وقت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دے رکھا تھا۔ اُس وقت عمران خان نے چائنیز سفیر کی دھرنا ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد چائنیز صدر کا دورہ منسوخ ہوگیا اور سی پیک معاہدے پر مہینوں تک دستخط نہ ہو سکے۔ اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں مستقل بنیادوں پر چائنیز سفیر موجود نہیں۔ جنوری میں سفیر نونگ رونگ کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے بعد سے یہ عہدہ مستقل سفیر سے خالی ہے۔