اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو جہاں پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بھرپور کوریج دی گئی وہیں میڈیا کے بعض عالمی اداروں نے بھی اس خبر کو نمایاں انداز میں پیش کیا لیکن بھارتی میڈیا نے اس خبر کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ جذبات، لفظوں اور لب ولہجے کے ساتھ پیش کیا۔
بھارت کی تقریباً تمام نیوز ویب سائٹس نے عمران خان کی گرفتاری کو شہ سرخی کے طور پر شائع کیا جبکہ ٹی وی چینلز پر بھی کئی گھنٹوں تک ان کی خبر چلتی دکھائی دی اور خبروں کے ساتھ ساتھ عمران خان کیلئے ہمدردی کے جذبات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا اور اس حوالے سے حکومت کے خلاف مذمتی ریمارکس بھی دیئے جاتے رہے۔
بعض ویب سائٹس پر اس حوالے سے اتنی تیزی سے کام کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ ہی پاکستان میں احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کی خبریں چلانی شروع کردی گئیں۔
یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو ’’پانامہ لیکس‘‘ میں جسے اس وقت ملکی تاریخ کا اہم ترین کیس قرار دیا گیا تھا، وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا اور بلاتاخیر ان کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا گوکہ عمران خان اب وزیراعظم نہیں اور ان کی کیس کی نوعیت بھی مختلف ہے لیکن بعض تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا یقین کی حد تک اندازہ ہے کہ عمران خان کے ’’القادر ٹرسٹ‘‘ جس کی مزید تفصیلات سامنے آنے پر یہ بھی اہم ترین کیس سے کم نہیں ہوگا اور اس کیس کا نتیجہ بھی ان کی نااہلی کی شکل میں ہوسکتا ہے گوکہ فی الوقت اسے 60 ارب روپے کی خطیر رقم کے عوض ایک خفیہ معاہدے کے تحت ایک بزنس ٹائیکون کو فائدہ پہنچانے اور اس کے عوض اراضی حاصل کرنے کے الزام کا معاملہ قرار دیا جارہا ہے لیکن اس کے کرداروں اور تفصیلات اس سے بھی زیادہ ہوشربا بھی ہوسکتی ہیں بالخصوص وہ کردار جو اس وقت خاموش ہیں اور وہ جو ابھی تک پس منظر میں ہیں۔
یادش بخیر عمران خان اپنی سیاسی زندگی میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے ہیں، پہلی مرتبہ ان کی گرفتاری سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے تھی اور اس مرتبہ انہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کی سیاست میں پہلی گرفتاری نومبر2007 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں اس وقت ہوئی تھی جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کیلئے تحریک جاری تھی اس وقت بھی عمران خان اس تحریک میں سرگرم تو تھے لیکن اپنی گرفتاری کا خدشہ اور اس سے بچنے کیلئے ہمہ وقت چوکس رہتے تھے اور کئی مواقعوں پر انہوں نے اپنی گرفتاری اور جیل جانے سے بچنے کیلئے پولیس کو بار بار جُل دینے میں کامیاب ہوجاتے۔
عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ایک موقع پر عمران خان نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طالب علموں سے ملاقات کرنی تھی جب وہ یونیورسٹی پہنچے تو ان کے میزبانوں سے قبل اسلامی جمعیت طلبا کے نوجوانوں نے عمران خان کا ’’پرُجوش استقبال‘‘ کیا۔
یونیورسٹی میں اس موقع پر موجود عمران خان کے مخالف طالب علم انہیں گھسیٹتے ہوئے کیمپس کے ایک سنٹر میں لے گئے اور ان پر تشدد کیا جس باعث وہاں بھگدڑ مچ گئی تشدد، مخالفانہ نعروں اور مخالف طلبا کے حصار میں عمران خان انتہائی پریشان اور خوفزدہ نظر آرہے تھے۔
ان سارے مناظر کی تفصیلات کے عینی شاہد صحافیوں نے اس وقت اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ لکھتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ بعض تصاویر میں عمران خان کو ڈیپارٹمنٹ کے میدان میں بھاگتے اور طالب علموں کو ان کا تعاقب کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا تھا اور یہاں عمران خان طالب علموں کی گرفت میں آگئے جنہوں نے ایک کمرے میں انہیں بند کردیا جہاں وہ تقریباً ایک گھنٹے تک محبوس رہے۔ تاہم بعد میں انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر طالب علم یویونیورسٹی سے باہر لے گئے جہاں انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
پہلے انہیں تھانہ اقبال ٹاؤن پھر سول لائنز اور پھر اس کے بعد کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ گوکہ ان پر مختلف دفعات کے تحت جن میں امن عامہ کی دفعہ16اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن یہاں یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ ان دفعات کے باوجود عمران خان کی سیاسی اسیری شاید 15 دن سے بھی کم تھی جبکہ بعض واقفان حال کا کہنا ہے کہ اسیری کی مدت ایک ہفتے سے بھی کم تھی لیکن عمران خان طویل عرصے تک اپنی گرفتاری کا تذکرہ یہ کہہ کر کرتے رہے کہ ۔ میں نے آمر کے خلاف جیل بھی کاٹی ہے ،مجھے پرویز مشرف نے عدلیہ کی آزادی کی پاداش میں جیل بھجوا دیا تھا۔
عمران خان گرفتاری اور جیل جانے سے کتنے خوفزدہ تھے اس کا اندازہ ان کے کزن اور معروف تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی جو اب ان کی سوچ اور اقدامات کے مخالف ہوچکے ہیں، اس وقت ان کے دست راست تھے عمران خان نے ان سے اپنی گرفتاری سے محفوظ رہنے کی یقین دھانی حاصل کی تھی اور حفیظ اللہ نیازی نے ہی انہیں شب بسری کیلئے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے گھر ٹھہرایا تھا جہاں سے وہ یونیورسٹی گئے تھے۔