• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفیان علی فاروقی

نسل نو کی تربیت ڈھنگ سے کی جائے تو وہ ایک مثبت اور بہترین تبدیلی کا استعارہ بن کر نمودار ہوتے ہیں اور سماجی ،ثقافتی ، معاشی اور معاشرتی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی جدوجہد میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ نوجوانوں کے فرائض پر تو بہت زیادہ گفتگو کی جاتی ہے، جیسے بحیثیت ایک انسان کے اس پر کیا کیا لازم ہے ،بحیثیت ایک خاندان کے فرد کے، طالب علم، ایک معاشرے کے فرد کے، بحیثیت ایک ملک کے شہری کے وغیرہ وغیرہ لیکن ریاستی اداروں کے کیا کیا حقوق ہیں اس پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے اور آج ہم اسی موضوع پرچند نکات پیشِ خدمت ہیں۔

نوجوانوں کے متعلق ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری 

جب تک نئی نسل پرمحنت نہیں کی جائے گی، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جائےگا ،انہیں بہتر ماحول فراہم نہیں کریں گے تو اس وقت تک ان سے سو فیصد نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے یہ جو آج جنریشن کا گیپ نظر آرہا ہے اس کایہ ہی سبب ہے۔ انہیں سکھا کچھ اور رہے ہیں اور نتائج کچھ اور ہی چاہتے ہیں یعنی گھاس بو کر گندم کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو کہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔ نوجوان نسل کو بحیثیت ریاست اور بحیثیت ایک معاشرے کے کیا ماحول فراہم کرنا چاہئے ان میں سےکچھ چیزوں کے بارے میں ملاحظہ کریں۔

کار آمد تعلیم تک رسائی

ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ باشعور اور کار آمد نوجوان بنانے کے لیے ان کی معیاری تعلیم کا فری یا قابلِ حصول بندوبست کیا جائے اور اس میں سماجی ، معاشرتی یا طبقاتی تفریق کا کوئی شائبہ تک نہ ہو ،ہمارے ہاں بدقسمتی سے کبھی بھی تعمیری تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے۔

ہمارے ہاں معیاری تعلیم نہ ہونے کی چند ایک وجوہات میں تعلیمی نصاب میں تعمیری اور اخلاقی مواد کا نا ہونا بھی شامل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک جمود کی کیفیت طاری ہے اور اس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قابل، ذہین اور حب الوطنی کے جذبات سے موجزن اساتذہ کی بے توقیری اور ان کا مجبوراً ملک سے نقل مکانی کرنا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے ایک مرتبہ کسی نے ایک ماہر تعلیم سے پوچھا کہ آپ اس ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے تو انہوں نے کہا کہ مجھے ان کا نظام تعلیم دکھادو میں ان کا مستقبل بتادوں گا۔

غربت اور بے روز گاری سے نجات

ریاست اور معاشرے کی اولین ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو غربت کی دلدل سے نکالے اور انہیں بے روزگاری کی لعنت سے بچانے کے لیے مستقل سکیمیں، چھوٹے بڑے کاروبار میں سپورٹ، مختلف پروجیکٹس میں ملازمت مہیا کی جائیں۔

اگر ہمارے نوجوان کا فریش اور ذرخیز دماغ مختلف تفکرات اور پریشانیوں میں گھراہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ اچھی کار کردگی نہیں کرپائے گا جس کا لامحالہ نقصان معاشرے اور ملک کو ہوگا اور وہ جمود کا شکار ہوکر ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوجائے گا۔

نوجوانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا

نوجوانوں کو کسی بھی قسم کے علاقائی ،لسانی ، مذہبی ،سیاسی اور ریاستی تشدد(جسمانی و ذہنی)سےمحفوظ رکھا جائے ،تمام اخلاق باختہ مواد بشمول کسی بھی قسم کی نشہ آور چیزوں سے ان کی حفاظت کرنا اور بہر طور اس کو روکنا بھی ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

آزادی اظہار رائے کا حق

نوجوانوں کواظہار رائے کا بھر پور موقع فراہم کرنا چاہیے اور ان کی زبان بندی کے تمام ہتھکنڈوں کی سختی سے بیخ کنی کی جائے ،اس وقت پاکستانی نوجوان بے شمار سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ان کو سننا اور سمجھنا چاہئے، صحیح یا غلط جو بھی ہو پھر اس کو بہتر انداز میں رہنمائی و معاونت کرنا ایک ریاست اور معاشرے کا بنیادی فرض ہے۔

نوجوانوں کے ان گنت مسائل دین اسلام سے دوری کی وجہ سے ہیں ،دینی علوم کا مطالعہ کرنا ہر نوجوان کے لیے بہت ضروری ہے۔ نسلِ نو میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدی ﷺ کا وہ اعتماد واپس لایا جائے، جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علا ج بہم پہنچایا جائے ،جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہیں۔

نوجوانوں پر بھی ضروری ہے کہ وہ کام جو انہیں ان کی مقصدیت سے ہٹاتا ہو یا کامیابی کے عمل کو سست روی کا شکار کرتا ہو اس سے دور رہیں ۔اپنی اسلامی تاریخ سے واقفیت پیدا کریں ،اپنی تہذیب ،اپنے تمدن ،اپنے علمی ورثہ سے جڑے رہنا بہت ضروری ہے جوقومیں اپنے عہد رفتہ کے نقوش پر نہیں چلتیں یا انہیں فراموش کردیتی ہیں ناکامی و نامرادی ان کا مقدر کردی جاتی ہے۔

نئی نسل کو علم ہونا چاہئے کہ آج یورپ کی تمام تر ترقی اور چکا چوند ہماری قرطبہ اور غرناطہ کی مسلم درسگاہوں کی رہین منت ہے، انہیں پتا ہونا چاہئے کہ صلاح الدین ایوبی نورالدین زنگی ، محمود غزنوی، خیر الدین بیبرس، غزالی، فارابی، ابن تیمیہ وغیرہ کون تھے۔ سائنس،صحت ،تعلیم ،امن ،رفاح عامہ، حکومت سمیت بے شمار شعبوں کی ابتداء اور بے شمار شعبوں کو عروج ثریاپر مسلم سائنسدانوں کیسے پہنچایا؟۔ نبوی دور حکومت کیسی تھی ، یہ واقفیت مقصدیت میں ایک بہترین معاون ثابت ہوگی۔