1961ء میں اداکار درپن نے اپنی ذاتی فلم ’’گلفام‘‘ بنائی، جس کی ہدایت کاری کے فرائض ان کےچھوٹے بھائی ایس سلیمان نے انجام دیے۔ یہ ان کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں درپن نے گلفام کا ٹائٹل رول کیا تھا۔ ان کے مدِمقابل اپنے دورکی گریس فل اور خُوب صورت ہیروئن مسرّت نذیر نے بہ طور ہیروئن کام کیا۔ ’’گلفام‘‘ کی کہانی عرب قوم کے کلچرل اور معاشرت پر مبنی تھی، جس میں اہل بغداد اوریونان کی تاریخ بتائی گئی تھی۔ ایک کاسٹیوم، ایکشن اور رقص و نغمات سے اس فلم کو ہر دور میں کام یابی اور مقبولیت حاصل رہی۔
’’گلفام‘‘ 29 دسمبر 1961ء میں کراچی کے سابق سینما ریگل پر ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم اپنے مرکزی سینما پر مسلسل 27 ہفتے چلی اور اُس نے سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ سائیڈ کے سینماؤں کے ساتھ اس فلم نے 56 ہفتے مکمل کرکے گولڈن جوبلی منائی۔ اس سپرہٹ فلم کو معروف اداکار وحید مراد کے والد نثارمراد نے اپنے ادارے ’’پاکستان فلمز‘‘ کے توسط سے ریلیز کیا تھا، جب کہ پنجاب سرکٹ میں یہ فلم ایور ریڈی کے بینر تلے نمائش پذیر ہوئی۔ لاہور میں یہ فلم صنوبر سینما میں جنوری 1962ء میں ریلیز ہوئی، جہاں یہ تین ماہ تک بڑی کام یابی سے نمائش پذیر رہی۔
گلفام کے مصنّف اقبال حسین رضوی تھے، جو اداکار درپن کے اسکول کے زمانے کے دوست تھے۔ یہ مکمل طور پر اپنے دور کی ایک کمرشل فلم تھی، جس میں رشید عطرے کی سحرانگیز موسیقی، تنویر نقوی اور حبیب جالب کے لکھے بہترین گانے، مسرت نذیر، پنا، اور رخشی کے دِل کش رقص، نذر کی قہقہے بار کامیڈی، درپن کے لاجواب ایکشن اور تلواربازی کے مناظر، مسرّت نذیر اور درپن کی رُومانس سے بھرپور سیکوینس، یہ تمام خصوصیات اس فلم کی کام یابی میں معاون ثابت ہوئیں۔
اس فلم میں مسرّت نذیر نے غزالہ نامی ایک خانہ بدوش صحرائی رقاصہ کا کردار اپنی دلربا اور حشرانگیز ادائوں سے کر کے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ اِس فلم کےہیرو درپن نے ایک عربی عیش پرست، حُسن و عشق کے دلدادہ نوجوان کا کردار کیا تھا۔ جو فلم کا ٹائٹل رول تھا، یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس کے ہیرو بھی اور ہیروئن بھی گلفام کے ٹائٹل میں کام کر رہے تھے۔ فلم کے ہیرو ایک روز غزالہ کا رقص دیکھ کر اُس کے حُسن و جمال اور شباب کےعاشق ہو جاتے ہیں، وہ ایک ایسے عرب سردار کے بیٹے تھے، جو منکرین خدا یونانیوں کے خلاف اپنی تلوار اور بہادری کے لیے پورے بغداد میں مشہور تھے۔
درپن کےباپ کا کردار سینئر اداکار ہمالیہ والا نے کیا تھا، جن کا اصل نام افضل تھا، وہ شملہ کے رہنے والے تھے، اس لیے ہمالیہ والا کے نام سے مشہور ہوئے تھے، وہ پاکستانی فلمی صنعت کےپہلے پاورفل وِلن تھے۔ اس فلم میں درپن کے چھوٹے بھائی کا کردار ایس سلیمان نے کیا تھا، جو فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کی اداکارہ پنا بیگم سے قربت بڑھی اور پھر دونوں نے شادی کر لی تھی۔ اس فلم میں اداکارہ پنا بیگم پرایک خُوب صورت کلاسیکل رقص فلمایا گیا تھا، جو فلم بینوں کو بہت پسند آیا تھا۔
یہ پہلی اور آخری فلم تھی، جس میں گلوکارہ نسیم بیگم اسکرین پر نظر آئی تھیں۔ پاکستانی فلموں کے پہلے کامیڈین نذر نے پہلی بار اس فلم میں مداری اور بادشاہ کے دُہرے کردار کیے تھے۔ ڈبل رول میں ان کی اداکاری سے فلم بین بے حد محظوظ ہوئے۔ اداکارہ رجنی نے اس فلم میں ان کی محبوبہ کا کردار کیا۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں نسرین، کافرہ، رخشی، آغا طالش، ریحان، فضل حق لڈن، بیلا ملک، سینڈو، رفیق موچھا، غریب شاہ اور اقبال رضوی کے نام شامل تھے۔
مسرّت نذیر، پنا، رخشی کےرقص، ماسٹر صدیق اور ماسٹر عاشق حسین سمراٹ نےترتیب دیے تھے، جو فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئے۔ ایک کاسٹیوم فلم ہونے کی وجہ سے اداکاروں کے ڈریسز میں بہت محنت کی گئی تھی، جس کے لیے ٹیلر ماسٹر فیروز کی خدمات لی گئیں۔ اس فلم کے نغمات بہت عمدہ تھے۔ فلم ’’گلفام‘‘ اپنے سپرہٹ نغمات، اور بہترین ڈائریکشن اور درپن، مسرّت نذیر کی لاجواب اداکاری کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے۔ یہ نہ صرف اپنے دور میں کام یاب ہوئی، بلکہ جب بھی یہ فلم ریلیز ہوئی، اپنی کام یابی کو برقرار رکھتے ہوئے پسند کی گئی۔