کراچی ( تجزیہ ، زیب النسا برکی) 9 مئی کے بعد عمران خان کو 10 دن لگے کہ وہ فوجی اور سویلین انفرااسٹرکچر اور عمارتوں پر ہونے والے حملوں کی مذمت کریں۔
اور جو مذمت انہوں نے کی وہ بھی ان کے ناقدین کی نظر میں دوٹوک مذمت نہیں تھی بلکہ یہ ملفوف سی مذمت ہے۔
عمران خان شروع دن سے ہی اپنے آپ کو یہ کہہ کر 9 مئی کے واقعات سے دور رکھتے آئے ہیں کہ وہ تو اس دن جیل میں تھے۔
دراصل یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئر مین نے 19 مئی تک حملوں کی کھلے عام مذمت نہیں کی۔
19 مئی کو جب انہوں نے پریس کانفرنس کی تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ کون ہوگا جو لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کو جلائے جانے کی مذمت نہ کرے۔ مجھے پاکستان بھر میں کوئی ایک شخصی بتائیں جس نے ایسانہ کیا ہو۔
اسی پریس ٹاک میں انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس پرانی عمارت کے جلائے جانے کا الزام ہم پر ایک مقصد کے تحت دھراجارہا ہے۔ اپنی 27 سالہ (سیاسی کیریئر) میں میں نے کبھی جلاؤ گھیراؤ نہیں کیا۔ میں نے ہمیشہ پُرامن احتجاج کی بات کی ہے جو کہ آئین اور قانون کے اندر ہو۔
تاہم ان کے ناقدین اس مذمت کو کافی نہیں سمجھتے بالخصوص وفاقی حکومت نے 9 مئی کے حملوں پر عمران خان کی مذمت کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ جو چیز کرنے کی ضرورت تھی وہ تو اپنا جرم تسلیم کرنا تھا کہ وہ اس دن کے واقعات کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کی ملفوف سی مذمت صدر عارف علوی کی جانب سے جیو کے حامد میر کو دینے جانے والے اس انٹرویو کے بعد آئی جب انہوں نے کہا کہ عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کی کھلی مذمت کرنا چاہیے۔ صدر نے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کو بھی کہا تھا۔
مذمت کے حوالے سے ہونے والے تنازع کی وضاحت کرتے ہوئے عمران خان نے 20 مئی کو کہا کہ ’’یہ پروپیگنڈہ تھا کہ میں نے 9 مئی کے تشدد کی مذمت نہیں کی‘‘۔
انہوں نے اپنے حامیوں سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو پُرامن احتجاج کے علاوہ کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
19 مئی تک پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرنا مشکل تھا اور وہ اگر مگر کے بغیر اور غیر مشروط طور پر ایسا نہیں کر رہے تھے۔
18 مئی کو اپنے ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’پی ٹی آئی ہمیشہ ایک پُرامن جمہوری جماعت رہی ہے۔ اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں میں نے بردباری دکھائی اور کسی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے پُرامن حل کاراستہ اختیار کیا خواہ اس کے نتیجے میں مجھے اور میری پارٹی کو دھچکا ہی کیوں نہ لگا ہو۔ میں نے اتھارٹیز سے کہا ہےکہ وہ سرکاری عمارتوں پر ہونے والے حملوں کی شفاف تحقیقات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کاناطقہ بند کرنے کے لیے اسکرپٹڈ ہے۔
15 مئی کو انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پر بہت سے شواہد ہیں جو کسی بھی خود مختار انکوائری میں پیش کیے جاسکتے ہیں کہ جلانے اور کچھ مقامات پر شوٹنگ کے واقعات ایجنسیوں کے آدمیوں نے کیے، یہ وہ لوگ تھے جو افراتفری پیدا کرکے اس کا الزام پی آئی آئی پر لگانا چاہتے تھے تاکہ موجودہ کریک ڈاؤن کے لیے جواز حاصل کیاجاسکے۔
پی ٹی آئی کی تمام صفوں ( ٹیئرز ) سے لوگ چھلانگیں لگا کر اس سے اتر رہے ہین اور 9 مئی کے واقعات کی مذمت کررہے ہیں۔
عمران خان نے جہاں 9 مئی کے واقعات کی کھلے عام مذمت کی ہے وہیں عمران خان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں پر کھلے عام مذمت نہ کرنے سے کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
یہاں یہ بھی تذکرہ کیاجاسکتا ہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کی قیادت نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا تھا کہ وہ تشدد نہیں چاہتی اور وہ کھلے بندوں تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔
درحقیقیت جیو نیوز کو اپنے اپنے انٹرویوز میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر دونوں نے حملوں پر غیر مشروط مذمت کی تاہم دونوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ یہ پی ٹی آئی کے خلاف ایک سازش ہے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ وہ 25 مئی 2022 کو اپنی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھے گی۔
پی ٹی آئی کے ٹوئٹر اکاوئنٹ سے 25 مئی 2022 کو جاری ہونے والے ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دن ظلم اور طاقت کے غلط استعمال کی کہانی کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ملک کی امپورٹڈ حکومت نے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔