• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیو لیکس، عدلیہ، حکومت پھر متصادم، فائز عیسیٰ کمیشن ہمارے معاملات میں مداخلت، چیف جسٹس، کارروائی روک دی

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے’ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن‘ کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے اجراء کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کا عبوری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے آڈیو لیکس کمیشن کو مقدمہ کی آئندہ سماعت تک مزید کارروائی سے روکدیا ہے جبکہ کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن معطل کر تے ہوئے کمیشن کی اب تک کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کردیا ہے.

عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر تمام فریقین کو نوٹسز بھی جاری کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت 31مئی تک ملتوی کردی ہے

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن ہمارے معاملات میں مداخلت ہے،حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے مشاورت ضروری، حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی، حکومت نے جلد بازی میں چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی کی، ہم سے مشورہ کرتی تو بہتر راستہ دکھاتے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا ٹیلی فون ٹیپنگ غیر قانونی ہے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اس فیصلے کی روشنی میں تو آڈیوز ہی غیر قانونی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ فیصلہ اقلیتی تھا.

 اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ چیف جسٹس بینچ کا حصہ نہ بنیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے میں بینچ سے الگ ہو جاؤں، چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، معلوم تھا آپ یہ اعتراض اٹھائینگے، مگر عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے، حکومت کیسے اپنے مقاصد کیلئے ججز کو منتخب کرسکتی ہے، اگر جھگڑنا ہے تو اٹارنی جنرل تیار کرکے آئیں، بحث کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پوچھے بغیر عدلیہ کے امور میں مداخلت کریں گے تو....... اور پھر یہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

تحریری حکم نامہ کے مطابق حکومت کی جانب سے بینچ میں چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال کی موجودگی سے متعلق اٹھنے والا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے، یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت لینا ضروری ہے،بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ اقدام سے آئینی اصولی کی خلاف ورزی کی ہے ،عدالت نے اپنے حکمنامہ میں کمیشن کی تشکیل کے عمل کو بھی مشکوک قرار دیا ہے.

 دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت نے ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ، بادی النظر میں آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں اور اس کمیشن کی تشکیل عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، آئین عدلیہ کو مکمل آزادی دیتا ہے، جو تحقیقات اداروں نے کرنی تھی وہ ججوں کے سپرد کردی گئی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز آڈیولیکس کمیشن کیخلاف پی ٹی آئی کے سربراہ ، عمران خان ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری وغیرہ کی درخواستوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے بینچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے استدعا کی کہ چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہ بنیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپکا مطلب ہے کہ میں بینچ سے الگ ہوجاؤں؟

عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، حکومت نے جلد بازی میں چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی کی ہے۔

 انہوںنے کہاکہ حکومت کیسے ججوں کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کرسکتی ہے، کمیشن کیلئے جج کی نامزدگی کا فورم چیف جسٹس پاکستان کا ہے، یہ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس خود کو کمیشن میں نامزد کریں لیکن چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابندنہیں ہیں، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیاگیا ہے۔

انہوںنے مزید کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے، ہم حکومت کامکمل احترام کرتے ہیں، آپ بیٹھ جائیں، آپ کی درخواست قابل احترام ہے لیکن چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، مجھے معلوم تھا آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے لیکن عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ نہیں ہے، آئین اختیارات کے تکون کی بات کرتا ہے،اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کو پامال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا قیام آئین کے آرٹیکل 209 کی بھی خلاف ورزی ہے۔

انہوںنے مزید کہا کہ 9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کیخلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔

 جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بادی النظر میںاختیارات کے تکون کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے، جب میڈیا پر یہ آڈیو چلائی جا رہی تھیں، حکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل میں یہ بھی نہیں لکھا گیا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی ہے؟ انہوںنے ریمارکس دیے کہ فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔

قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے اور بینچ پر اعتراض اٹھا دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب، عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے۔

اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے۔

اہم خبریں سے مزید