اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد) مالی سال 2023-24ء کے وفاقی بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی تعداد میں کمی کئے جانے کی تجویز ہے۔ اگرچہ ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی تعداد میں کمی کا امکان ہے تاہم چونکہ آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاملات کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے ایف بی آر کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 9ہزار 2سو ارب روپے مقرر ہوا ہے لہٰذا نئے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کے ریٹ بڑھائے جانے کی تجویز ہے۔ ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی شاہد حسین اسد سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ 50ہزار سے زیادہ کا لین دین این آئی سی کے بغیر نہیں ہو گا‘ بجٹ میں شناختی کارڈ نمبر کے تحت ایف بی آر کے سسٹم میں سکروٹنی ہوا کرے گی اگرچہ حکومت نے توازن ادائیگی کنٹرول کرنے کیلئے درآمدات پر پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن پابندیوں کی سختی کی وجہ سے ملک میں مینو فیکچرنگ اور تجارت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگر ملکی معیشت ترقی نہیں کرتی تو ٹیکس کی وصولیوں میں اضافے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے کیونکہ ٹیکس اکانومی کا ڈیویڈنڈ ہوتا ہے۔ اگر تیس روپے فی ڈالر کے بہت بڑے فرق کو ٹیکس ریٹ بڑھا کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف معیشت پر برا اثر پڑیگا بلکہ مہنگائی تلے دبے ہوئے عوام میں بے چینی بڑھے گی۔ عوام پہلے ہی معیشت کے دبائو کا شکار ہیں۔ چونکہ 2023ء الیکشن کا سال ہے اسلئے نئے وفاقی بجٹ میں ٹیکس ریٹ بڑھانا حکومت کے حق میں نہیں جائیگا۔ یہ اقدام حکومت کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا۔ ٹیکس بڑھانے کا حکومت کے پاس ایک مناسب طریقہ ہے کہ ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دی جائے جس کیلئے حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ 50ہزار روپے سے زیادہ کے تمام لین دین پر کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی شرط کو دوبارہ عائد کر دے۔