اداکارہ زمرّد جن کا پُورا نام زمرّد سُلطانہ تھا۔ 1946ء میں مشرقی پنجاب کے شہر امرت سر میں پیدا ہوئیں، بڑے ماہر اور مشّاق اساتذہ سے رقص کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور سیکھنے والی اس اداکارہ نے 1958ء میں ہدایت کار منشی دِل کی فلم ’’حسرت‘‘ میں اداکار یوسف خان کی بہن کا کردار ادا کر کے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1991ء میں اُن کی آخری فلم ’’بابل‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار پرویز رانا تھے۔
اداکارہ زمرّد کا فنی کیریئر33 سال پر محیط ہے۔ اُن کی کل ریلیز شُدہ فلموں کی تعداد 233 ہے۔ اُردو فلموں کی تعداد 95، پنجابی فلمیں 135 ہیں، جب کہ 3 پشتو فلمیں بھی شامل ہیں۔ اِس مختصر تحریر میں ان کی تمام فلموں کا تذکرہ ناممکن ہے، اِس لیے چند نمایاں فلموں کا ذکر پیش خدمت ہے۔ اپنی زندگی کا طویل عرصہ فلمی دُنیا کو دینے والی اداکارہ زمرّد نے جب فلموں میں اداکاری کا آغاز کیا، تو اِس نام کی ایک اداکارہ پہلے سے فلموں میں کام کر رہی تھیں، جس کی وجہ سے لوگوں نے ان دونوں میں تمیز کرنے کے لیے چھوٹی زمرّد اور بڑی زمرّد جو پہلے سے موجود تھیں، ان کے ناموں کے ساتھ پکارنا شروع کیا۔ کچھ دنوں بعد چھوٹی زمرّد نے اپنا نام ستارہ رکھ دیا۔
یہ نام انہیں فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی طلسماتی فلم گلبدن میں کاسٹ کرتے ہوئے دیا۔ یہ فلم 1960ء میں ریلیز ہوئی۔ مسرت نذیر اور اعجاز نے اِس میں مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ فلم کے ہدایت کار اے حمید تھے۔ اِس فلم میں ستارہ پر ایک بین کی دُھن میں گانا فلمایا گیا، جس کے بول تھے؎ بجائی یہ کیسی بین لیا سکھ چین میرا چھین، اس گانے پر فلم بینوں نے ان کے رقص کو بے حد پسند کیا اور اِس طرح زمرّد نے ستارہ بن کر فلمی دُنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔ ستارہ کے نام سے زمرد کی ریلیز ہونے والی فلموں میں، انور کمال کی وطن، ایس ایم یوسف کی سہیلی، ایم جے رانا کی پنجابی فلم شیرا، شیخ اے رحمان کی پنجابی فلم آبرو، ولی صاحب کی سوہنی کمہارن کے علاوہ بمبئی والا، میرا کیا قصور، آواز دے کہاں ہے، سورج مکھی، بلبل بغداد، مہتاب، زرینہ، گلشن، شہباز، غازی بن عباس، گل فروش، جمالو، نتیجہ، بارات کے نام شامل ہیں۔
اِن تمام فلموں میں بہ طور رقاصہ اور مختصر کردار کرنے والی زمرّد کو ستارہ کے نام سے بھی کوئی نمایاں مقام نہ مل سکا۔ وہ جس ارادے سے فلمی صنعت میں آئی ، ابھی ان کی منزل دُور تھی، مگر ایک باہمت اور مضبوط ارادے کی خاتون تھیں، ہمت نہ ہاری اور محنت سے کام کرتی رہیں۔ 1963ء میں کراچی میں بننے والی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ کے فلم ساز و ہدایت کار بٹ کاشر نے انہیں اپنی فلم میں پہلی بار سولو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا اور ان کے مقابل ایک نئے ہیرو حنیف کو متعارف کروایا، جو دلیپ کمار کی مشابہت رکھتے تھے۔ فلم کے پروڈیوسر نے زمرّد کو ستارہ کے بجائے نئے نام ’’نازی‘‘ کا دیا اور انہیں بھارتی اداکارہ کامنی کوشل کے نام سے پبلسٹی دی، کیوں کہ فلم کے ہیرو کو وہ پہلے ہی پاکستانی دلیپ کمار مشہور کر چکے تھے۔
فلم میں پبلسٹی میں باقاعدہ یہ لکھا جاتا پاکستانی کامنی کوشل اور پاکستانی دلیپ کمار ، لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیے زمرّد سے ستارہ اور ستارہ سے نازی بن کر بھی انہیں وہ مقام نہ مل سکا، جس کی وہ متمنّی تھیں۔ وہ بہت صابر اداکارہ تھیں اور قسمت کا فیصلہ سمجھتے ہوئے بہ طور رقاصہ اور ثانوی حیثیت میں اپنے کام میں لگی رہیں۔ اِس عرصے میں وہ سائیڈ ہیروئن بن چکی تھیں۔
رقاصہ، ثانوی اداکارہ اور سائیڈ ہیروئن کے طور پر وہ شباب، لٹیرا، چھوٹی اَمی، عشرت، اندھی محبت، بہو بیگم، فیشن، ناچے ناگن باجے بین ، پنجاب دا شیر، معجزہ، ملنگی، بدنام، پائل کی جھنکار، چٹان، عالیہ، پاکیزہ، مجھے جینے دو، جان آرزو، ماں بہو اور بیٹا، میم صاحب، کون کسی کا، الف لیلیٰ، نامی فلموں میں نظر آئیں۔ 1966ء میں نمائش ہونے والی تاریخی کاسٹیوم فلم ’’الہلال‘‘ میں زمرّد نے بہ طور سائیڈ ہیروئن اپنے دور کے خوبرو ہیرو دَرپن کے مدمقابل ایک یہودی خانہ بدوش رقاصہ مارینہ کا کردار ادا کر کے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔
اس فلم میں اُن پر فلمایا ہوا یہ گانا؎ یہ رنگ یہ محفل آج ہر دل جواں ہے‘‘۔ فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ فلم کے ہدایت کار منور رشید تھے۔ اداکارہ حُسنہ نے اس فلم میں ہیروئن کا رول تھا۔ اِسی سال فلم ساز ریاض شاہد، ہدایت کار جمیل اختر کی مزاحیہ پنجابی فلم مسٹر اللہ دتہ میں زمرّد نے علائو الدین کی بہن کا کردار بڑی خُوبی سے ادا کیا۔ اس سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار خلیل قیصر کی فلم حکومت، عزیز میرٹھی کی فلم عالیہ، منور رشید کی ناخدا، میں وہ بہ طور سائیڈ ہیروئن شامل تھیں۔
1967ء میں اداکار سدھیر کی کام یاب ایکشن فلم ’’چٹان‘‘ میں انہوں نے ایک گانے میں اپنے بہترین رقص کا مظاہرہ کیا، جس کے بول تھے؎ گوری کر کے ہار سنگھار ہو جا ملنے کو تیار سجن تجھے لینے آئے‘‘ کا یہ وہ گانا ہے، جس نے ریڈیو پاکستان کے تمام اسٹیشنوں پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ اس فلم میں اداکارہ نیلو نے ہیروئن کا کردار کیا تھا، جب کہ زمرّد سائیڈ ہیروئن بنیں۔ 1968ء میں ہدایت کار ایم رزاق کی میوزیکل، رومانی فلم کٹاری میں پہلی مرتبہ اداکارہ زمرّد کو ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا۔
اس فلم میں طارق عزیز ہیرو تھے، جب کہ اداکار اعجاز بھی اہم کردار میں شامل تھے۔ ایک خُوب صورت نغماتی فلم اداکار طارق عزیز کی اوور ایکٹنگ کا شکار ہو کر فلاپ ہوگئی۔ یہ فلم 8 مارچ عیدالاضحیٰ کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی۔ لاہور کے خُوب صورت سینما گلستان کا افتتاح اسی فلم سے ہوا تھا۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے کہ اس عید پرلاہور کے میٹروپول سینما کا افتتاح فلم ’’محل ‘‘سے ہوا تھا۔ اِس فلم میں محمد علی، زیبا اور غزالہ نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
1973ء میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار اقبال کاشمیری کی پنجابی فلم ’’ضدی‘‘ میں زمرّد کی اداکاری کو فلم بینوں نے بے حد پسند کیا۔ یوسف خان نے ضدی کے کردار کو عمدہ فطری تقاضوں کے ساتھ ادا کیا تھا۔ فردوس اس فلم کی ہیروئن، جب کہ اعجاز ہیرو تھے۔ اِس فلم میں زمرّد پر فلمایا گیا یہ گانا؎ ترے نال نال وے میں رہنا، پنجابی فلمی شاعری میں ایک مقبول ترین گانے کے طور پر آج بھی ہٹ ہے۔ اقبال کاشمیری کی اِس سال نمائش ہونے والی ایک بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ میں زمرّد نے ایک بار پھر منفی کردار میں اپنی اداکاری کا مظاہرہ کر کے فلم بینوں سے داد وصول کی۔ فردوس کی امیر سہیلی کے اِس کردار میں وہ خوب جچی تھیں۔
اس سال نمائش ہونے والی پنجابی فلم جٹ دا قول میں اداکارہ زمرّد نے پہلی بار ڈبل رول کیا تھا۔ عظمت نواز اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ ہدایت کار ایم جے رانا کی اصلاحی پنجابی فلم چن تارا میں ایک بار پھر زمرّد کی جوڑی اداکار اقبال حسن کے ساتھ پسند کی گئی۔ اس فلم میں اِن دونوں پر ایک خوب صورت اور مقبول دو گانا فلمایا گیا جس کے بول تھے؎ تک چن پیا جاندا اے، جو اِس فلم کی کام یابی کا باعث بنا۔ 1974ء میں ہدایت کار جعفر بخاری کی معاشرتی اصلاحی فلم ’’جواب دو‘‘ میں زمرّد نے بہ طور ہیروئن درپن اور یوسف خان کے مقابل کیا۔ یہ ایک بہترین فلم تھی، جو التواء کا شکار ہونے کی وجہ سے کام یاب نہ ہو سکی۔ اِس فلم میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا مقبول گانا؎ زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا، زمرّد پر فلمایا گیا۔
ہدایت کار حسن عسکری نے زمرّد کو اپنی اُردو فلم اِک دوجے کے لیے میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم 1983ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہاں سے اس اداکارہ کا دُوسرا دور شروع ہوا، جس میں وہ زیادہ تر پنجابی فلموں میں بہ طور آئٹم سونگ ڈانسر کے بے حد کام یاب رہیں۔ ماضی کی زمرد کو جب فلم بینوں نے دوبارہ اسکرین پر دیکھا، تو خوش آمدید کہا۔ ان کے ڈانس باکس آفس کی ضرورت بن گئے، پنجابی فلموں میں ان کی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا۔ وہ اپنی گریس فل شخصیت اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے اُس دور کی پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئیں۔
اُس دور میں صاحب جی، موتی تے ڈوگر، مراد خان، راکا، نمک حلال، عشق پیچا، کمانڈر، باز شہباز، راجہ رانی، دھی رانی، چاندنی، بابر خان، چوڑیاں، پُکار، مقدّر، جگّا، آشیانہ، غلامی، خوددار، حق مہر، چن تے سورما، اکبر خان، قیدی، قیمت، میلہ، دارا گجر، سہاگن، دلاری، ناچے ناگن، کالو، تحفہ، کالکا میں ان کے آئٹم سونگ بے حد پسند کئے گئے۔ کردارنگاری کے حوالے سے اس دور کی فلموں میں کلیار، خوددار، حق مہر، اکبر خان، فقیریا وہ پنجابی فلمیں تھیں، جن میں زمرّد کی متاثرکن اداکاری نے فلم بینوں کو صدِ آفرین کہنے پر مجبور کر دیا۔ اس عرصے میں ان کی چند اُردو فلموں میں لازوال، مہک، پلکوں کی چھائوں، جینے نہیں دوں گی، شک، میاں بیوی اور وہ، اگر تم نہ ہوتے، ایک ہی راستہ، زمین آسمان، بے قرار، پروانہ، نزدیکیاں، گریبان، چوروں کی بارات، ڈاکو کی لڑکی، کرائے کے قاتل، میں زمرّد کی کردارنگاری بہت اعلیٰ رہی۔
ان کی آخری ریلیز فلم بابل تھی، جو 1991ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر اپنی گھریلو زندگی اور فیملی میں مصروف ہوگئیں۔ جب وہ بہ طور اداکارہ کام کر رہی تھیں ، اُس وقت بھی نہ وہ کبھی انٹرویو کی شوقین رہیں۔ اداکارہ زمرّد کے فلمی سفر کا یہ مختصر احوال آپ کے سامنے ہے۔ ان کے فنی کیریئر کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہ طور ہیروئن اور سائیڈ ہیروئن زیادہ کام یاب نہ رہیں۔
ان کا چہرہ کسی خاص، جذباتی اور رُومانی کرداروں کے لیے کبھی بھی موزوں نہیں رہا اور نہ ہی انہوں نے اپنی اس کمزوری کو کبھی اہمیت دی، حالاں کہ انہیں مواقع فراہم کئے گئے اس کی نسبت وہ ثانوی کرداروں، مثلاً بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کے کرداروں میں زیادہ کام یاب رہیں۔ سب سے زیادہ وہ بہ طور رقاصہ اور ویمپ کے کرداروں میں کام یاب رہیں۔ قدرت نے انہیں جو شکل و صورت عطا کی، وہ جب اسکرین پر اپنے تیز نقوش والے چہرے، اور آنکھوں کے ڈورے، گھوماتی نظر آتیں، تو ان کی بے باک ادائیں ایک رقاصہ اور ویمپ کے کرداروں کی غمازی کرتے نظر آتے، جہاں تک اُن کی عام زندگی کا تعلق ہے تو وہ اسکرین کی بے باک اور قاتل ادا اداکارہ کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں۔
وہ نجی زندگی میں بے حد ملنسار، وضع قطع اور محبت کرنے والی خاتون ہیں۔ تمام فنی کیریئر میں انہوں نے کبھی پیسے کو اہمیت نہ دی، جس فلم ساز نے انہیں جو معاوضہ دیا وہ صبر شکر سے لے کر رکھ دیا۔ معاوضہ کم ملنے کا شکوہ کبھی زبان پر نہ لاتیں اپنے فن سے سچی محبت کرنے والی یہ مخلص اور حسین اداکارہ آج اسی گانے کی تصویر نظر آتی ہیں؎بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا، فلمی دُنیا کی چمک دمک سے دُور آج وہ ایک پُرسکون زندگی بسر کر رہی ہیں۔