جاوید اقبال
مرغی، لومڑی کو جھاڑیوں کے پاس بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ وہ محتاط قدموں سے یہ دیکھنے کے لئے آگے بڑھی کہ لومڑی یہاں کیا کررہی ہے۔ اس نے دیکھا، لومڑی کی دُم ایک لوہے کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے، جسے وہ چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتنے میں لومڑی کی نظر مرغی پر پڑگئی۔ ”آؤ آؤ بہن! کیا حال ہے‘‘؟ لومڑی نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا ہوا؟“ مرغی نے لومڑی کی شکنجے میں پھنسی ہوئی دم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
لومڑی نے کہا،”بہن! اس نامراد شکنجے کے ساتھ گوشت کا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ میں نے اسے کھانا چاہا تو ایک زور کی آواز آئی اور میری دُم اس میں پھنس گئی۔“
مرغی نے کہا، ”لیکن تم تو بہت چالاک اور ذہین ہو،تم اس میں کیسے پھنس گئیں؟“
مرغی سوچ رہی تھی کہ کہیں لومڑی کوئی چال نہ چل رہی ہوں۔
لومڑی بولی،”بہن!لالچ بُری بلا ہے۔گوشت کا ٹکڑا دیکھ کر میرا دل للچا گیا۔اگرتم میری مدد کرو تو میں شکنجے سے آزاد ہوسکتی ہوں۔“
مرغی نے کہا،”ابھی دو دن پہلے تم نے میرے ننھے منھے بچے کوکھالیا تھا،پھر بھی مجھ سے مدد کی توقع رکھتی ہو۔“
لومڑی نے کہا ”بہن مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔دیکھو میرا تم پر ایک احسان بھی تو ہے۔‘‘
”کیسا احسان؟“مرغی نے حیرت سے کہا۔
’’دیکھو میری وجہ سے تم اور تمہارے بچے محفوظ ہیں۔ میں تمھاری ہمسائی نہ ہوتی تو لوگ تمھیں اورتمھارے بچوں کو پکڑ کرلے گئے ہوتے۔“
لومڑی کی بات سن کر مرغی سوچ میں پڑگئی کہ لومڑی کی مدد کرے کہ نہ کرے۔
مرغی کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر لومڑی چالاکی سے بولی ،’’بہن! کیا سوچ رہی ہوں، دیر نہ کرو رنہ شکاری آجائے گا۔ میری توجان جائے گی، میرے ساتھ تم اور تمھارے بچے بھی نہ بچ سکیں گے۔‘‘
مرغی، لومڑی کی چال میں آگئی۔ وہ اس کے پاس چلی آئی اور غور سے اس کی پھنسی دُم کو دیکھنے لگی۔ اس نے لوہے کے شکنجے کا اپنی چونچ سے ٹھونگیں ماریں، پنجے سے کریدا،پھر بولی،
”یہ تو بہت مظبوط ہے، میں اسے نہیں کھول سکتی۔“
لومڑی سر گھما کر بولی،”لو، میں بھی اپنے پنجے سے زور لگاتی ہوں۔“
دونوں نے مل کر زور لگایا تو شکنجے کا اوپری حصہ کچھ اوپر اُٹھا۔
لومری نے اپنی دُم کو باہر کھینچ لیا اور جلدی سے شکنجے کو چھوڑدیا،جس سے شکنجے کی نوک ٹھک سے مرغی کے پنجے پر گری اور اس کا پنجہ شکنجے میں پھنس گیا۔
لومڑی نے اپنی دُم کو جھاڑا، سہلایا۔ اس کی دُم کے بہت سارے بال اُکھڑ گئے تھے۔ وہ اپنی زخمی دُم اُٹھائے جنگل کی طرف چل پڑی۔
لومڑی کو جاتے دیکھ کر مرغی نے کہا،”بہن کہاں چلیں،میرا پنجہ تو چھڑاتی جاؤ؟“
لومڑی بولی، ”بہن میری دُم پر زخم ہو گیا ہے۔ میں ذرا گھر جا کر مرہم پٹی کرلوں،پھر آکر تمہیں آزاد کرتی ہوں۔“ اس کا رُخ مرغی کے گھر کی طرف تھا،جہاں مرغی کے بچے اکیلے تھے۔ وہ خیالوں میں ہی ان کے مزے دار گوشت کے چٹخارے لیتی تالاب کے کنارے پہنچی اور پھر جیسے ہی اس نے مرغی کے گھر میں داخل ہونا چاہا۔ایک کالی بلا اس پرجھپٹی، اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، اسے زور کا ایک دھکا لگا۔
وہ اُڑکر دور جا گری۔اسی وقت اس نے بھیا ریچھ کو مرغی کے گھر سے نکل کر اپنی طرف آتے دیکھا تو دُم دبا کر وہاں سے بھاگی۔
مرغی، بھیا ریچھ کو اپنے گھر اور بچوں کی حفاظت کا کہہ کر گئی تھی۔بھیاریچھ مرغی کو ڈھونڈنے نکلے۔ جھاڑیوں کے پاس انہیں مرغی مل گئی۔انہوں نے اس کا پنجہ شکنجے سے نکالا اور اسے اس کے گھر تک چھوڑنے آئے۔لومڑی ریچھ کے ڈر سے یہ جنگل ہی چھوڑ گئی اور کسی دوسری جگہ جا بسی۔
بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ فوراََ کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔