• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم ایک طاقتور میڈیم ہے اور فن کاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پردہ اسکرین پر جگمگائیں۔ ٹی وی ڈراموں سے مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے کے بعد فن کار سیدھا فلموں کی جانب رُخ کرتے ہیں۔ کچھ اسٹارز تو ایسے بھی ہیں، اِدھر ڈراما سپرہٹ ہوا، اُدھر اُنہیں فلموں میں کام کرنے کی پیش کش شروع ہوگئیں۔ ڈراموں کے ہیرو اور ہیروئن فلموں میں جلوہ گر ہوتی ہیں، تو کچھ کو کام یابی ملتی ہے اور کچھ واپس ٹی وی اسکرین جوائن کرلیتے ہیں۔ فیروز خان، میکال ذوالفقار، شہزاد شیخ، صنم سعید، مُحب مرزا، احسن خان، سینئر فن کاروں میں طلعت حسین، راحت کاظمی، ضیاء محی الدین، معین اختر و دیگر فن کاروں نے فلموں میں کام کیا، مگر انہیں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان سب باتوں کے باوجود آج کل فلم انڈسٹری کو ٹی وی ڈراموں کے مقبول فن کاروں نے ہی سنبھالا دیا ہوا ہے۔ 

فلمی تقاریب میں ٹی وی ستاروں کی کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ دِنوں کراچی میں عیدالاضحی پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعارفی تقاریب منعقد کی گئیں۔ اس موقع پر فن کاروں کی غیر معمولی دل چسپی دیکھنے میں آئی، کوئی فن کارہ مہنگے ترین پارلر سے تیار ہوکر تقریب میں شریک ہوئیں، تو کوئی قیمتی لباس زیب تن کرکے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ اس ساری تیاریوں میں تقریب میں شریک ہونے والے دیگر مہمانوں کو اس وقت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، جب تقریب اپنے مقررہ وقت سے تین سے چار گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ ایسی صورت حال میں شرکاء تھک جاتے ہیں اور دوسری جانب تقریب کی خُوب صورتی اور دل کشی بھی متاثر ہوتی ہے۔ 

ایسا ہی مناظر گزشتہ دنوں ان فلمی تقاریب میں دیکھنے میں آئے۔ اگر فلم انڈسٹری کو بحال کرنا ہے، تو ہمیں وقت کی قدر کرنا ہوگی۔ انڈسٹری ابھی اتنی کام یابی سے آگے نہیں بڑھ رہی کہ مہمان تقاریب میں اپنا قیمتی وقت ان کو دے دیں۔ ہمیں دنیا بھر میں ہونے والی شوبزنس تقاریب سے سیکھنا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے ہدایت کار کامران رانا کی فلم ’’وی آئی پی‘‘ کا ٹریلر لانچ کیا گیا۔ فلم کی کاسٹ میں شامل نئے فن کار تھے، اس لیے وہ وقت پر پہنچ گئے، مگر ہدایت کار کامران رانا اپنے چند ضروری مہمانوں کا دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک انتظار کرتے رہے، جس کی وجہ سے تقریب میں میڈیا اور فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ 

فلم ’’وی آئی پی‘‘ کے ہیرو اور ہیروئن سے کم لوگ واقف تھے، لیکن کامران رانا کو سپورٹ کرنے کے لیے نامور ڈائریکٹر احتشام الدین، نبیل قریشی، فضا علی مرزا، ندیم بیگ، اداکار و ہدایت کار جاوید شیخ و دیگر فلمی شخصیات موجود تھیں، مگر ان شخصیات کی موجودگی کا منتظمین نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ فلم کا ٹریلر دکھایا اور تھوڑی دیر میں تقریب ختم ہوگئی۔ صفِ اول کے فلم ڈائریکٹرز سے اظہار خیال کروایا جاتا تو فلم کو کافی سپورٹ ملتی۔ فلم ’’وی آئی پی‘‘ کی کاسٹ میں ٹی وی اداکارہ نمرہ شاہد، سلیم معراج، اختر حسنین، گلِ رعنا، عرفان موتی والا، اکبر اسلام، دانش نواز و دیگر شامل ہیں۔

دوسری جانب عیدالاضحی پر ریلیز کی جانے والی فلم ’’تیری میری کہانیاں‘‘ کی تعارفی تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد کی گئی، اگر تقریب وقت پر شروع ہو جاتی، تو اس کا تاثر بہت اچھا ہوتا۔ دعوت نامے میں سات بجے کا وقت دے کر تقریب دس بجے شروع ہوئی۔ سخت گرمی کی وجہ سے فن کارائوں کے میک اپ خراب ہوگئے۔ پسینے سے سب کا بہت بُرا حال تھا۔ بہرحال تقریب شروع ہوئی، تو کچھ ماحول میں بہتری آئی۔ 

تقریب میں سپر اسٹار مہوش حیات، وہاج علی، شہر یار منور، رمشا خان، مانی، حرا مانی، آمنہ الیاس، مرینہ خان، ماریہ واسطی، صبا پرویز، ندیم بیگ، فضا علی مرزا، حسن ضیاء، آئی ایم جی سی کے سربراہ امجد رشید، ایورریڈی کے ستیش آنند، واسع چوہدری اور دیگر فلمی شخصیات نے شرکت کرکے رونقوں میں اضافہ کیا، فن کاروں کی بڑی تعداد میں سب سے زیادہ توجہ جیو کے ڈرامے ’’تیرے بِن’’ کے وہاج علی کو ملی، وہ پوری تقریب میں چھائے رہے۔ مداح ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے کے لیے بے قرار نظر آئے اور جیسے ہی وہ تقریب میں آئے، سارا میڈیا ان کی جانب تیزی سے بڑھا۔ انہیں سپر اسٹار مہوش حیات کے مقابلے میں میڈیا نے زیادہ توجہ دی۔ تقریب کے کمپیئر اور مزاحیہ فن کار واسع چوہدری نے نہایت سلیقے سے تقریب کو چلایا اور فن کاروں سے نوک جھونک کرتے رہے۔

تقریب میں مہوش حیات اور وہاج علی کے بارے میں دل چسپ گفتگو سننے کو ملی۔ وہاج علی نے بتایا کہ فلم کی ریلیز میں ابھی کچھ دن باقی ہیں، لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ٹریلر کا فیڈ بیک آئے گا، تو معلوم چلے گا کہ ہم نے کیسا کام کیا ہے۔ میں نے کئی فن کاروں سے سُنا تھا کہ بڑے پردے پر کام کرنے کا الگ مزا ہے۔ عام طور پر میں اپنے پروجیکٹ پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دیتا، لیکن فلم کے مصنف خلیل الرحمٰٓن قمر کی وجہ سے مجھے اسکرپٹ پر بہت زیادہ توجہ دینا پڑی، جب میں نے ڈرامے سے فلم کی جانب قدم بڑھایا، تو اس کے لیے پُوری تیاری شروع کی۔ میں نے دو تین مرتبہ معلوم کیا کہ کیا خلیل الرحمٰن قمر صاحب سیٹ پر آئیں گے، مگر وہ نہیں آسکے۔ 

میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ وہاج علی نے مزید بتایا کہ مہوش حیات کے ساتھ اس فلم میں پہلی بار کام کررہا ہوں۔ البتہ میں نےان کی فلمیں سنیما گھروں میں دیکھی ہیں۔ میں ان کا فین ہوں۔ شوٹنگ کے دوران ان کی آنکھوں میں اپنی تصویر دیکھتا تھا۔ میں نے جج ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ اس وقت کیا ہورہا تھا۔ آج کل میں اپنے ڈرامے کی وجہ سے سب کی توجہ بنا ہوا ہوں‘‘۔ سپر اسٹار مہوش حیات کا کہنا تھا کہ میں نے ڈائریکٹر ندیم بیگ سے پوچھا کہ فلم میں کون کون ہیں، کیا ہمایوں سعید بھی ہیں؟ تو مجھے جواب ملا، ہمایوں نہیں ہیں، تو میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر تو دائریکٹر کی ساری توجہ مجھ پر ہوگی۔ 

فلم ڈائریکٹر ندیم بیگ نے بتایا کہ وہاج علی کے مدِمقابل مہوش حیات کو کاسٹ کیا، تو ہمایوں سعید کا مثبت ردِعمل سامنے آیا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کہ ہمایوں نے اپنی کلائیوں کو کاٹ لیا۔ یہ سب مذاق ہے۔ وہاج علی سے ایک میٹنگ ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو فلم میں کاسٹ کرنا ہے۔‘‘ فلم کے ڈسٹری بیوٹر امجد رشید نے بتایا کہ میں اب تک چار سو فلمیں ریلیز کرچکا ہوں۔ ہمیشہ فن کاروں اور فلم انڈسٹری کو سپورٹ کیا۔ 

میری خواہش ہے کہ ایک فلم ندیم بیگ کے ساتھ ریلیز کروں، مگر وہ اب تک نہیں ہوسکا، البتہ اب ’’تیری میری کہانیاں‘‘ میں ہم سب اکٹھے ہوگئے ہیں۔ عیدالاضحی پر ایک ٹکٹ میں تین فلموں کے الگ الگ نام بھی سامنے آگئے ہیں۔ نبیل قریشی کی فلم ’’جن محل‘‘ ندیم بیگ کی 123واں اور مرینہ خان کی فلم کا نام ’’پسوڑی‘‘ بتایا گیا ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو ٹیلی ویژن انڈسٹری سے نئے ہیرو مل رہے ہیں۔ اس کا فائدہ فلم سازوں کو اٹھانا چاہیے اور ساتھ ساتھ تقاریب کو وقت پر شروع کرنے کی روایت کا آغاز کرنا چاہیے۔ 

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید