• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 مئی کے بعد حالات تبدیل پنجاب الیکشن کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں، یہ تاریخ بن چکا، چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے پنجاب اسمبلی میں عام انتخابات منعقد کروانے سے متعلق فیصلے کیخلا ف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست اور سپریم کورٹ ( ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر) ایکٹ کیخلاف دائر آئینی درخواست کا یکجا کرتے ہوئے انکی اکھٹے سماعت کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور سپریم کورٹ ( ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر) ایکٹ کیخلاف مقدمہ میں اٹارنی جنرل، صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری سینیٹ اور وزارت پارلیمانی امور کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 13جون تک ملتوی کردی ہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے ہیں کہ عدالت کے دروازے پر احتجاج انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے،اچھی بات کہ حکومت اور اداروں نے قانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا ہے، 14 مئی کو پنجاب میں عام انتخابات کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے لیکن یہ فیصلہ تاریخ بن چکا ہے ، اسمبلی کی تحلیل کے90روز میں انتخابات کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے، وقت گزرچکا ہے، اگرچہ 90 روز نہیں پھر بھی ہم نے اس تقاضے کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے،انہوںنے واضح کیا کہ 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اب واپس لینا ممکن نہیں ہے، انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کردیئے ہیں کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں؟ اور کن حالات میں نہیں ہوسکتے؟پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا ملک میں آئین 14 مئی کے بعد مر چکا ہے، 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب میں نے بار بار سوچا تو جواب ملا کہ آئین قتل ہوگیا ہے، آئین کی کمانڈ تھی، سپریم کورٹ کا حکم تھا لیکن 14 مئی کو انتخابات نہ ہوئے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی ایکٹ میں اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں،آپ بھی اس پر اپنی رائے دیں،ہم کیا سوچ رہے ہیں پھر بتا دینگے،جس پر فاضل وکیل نے پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس پر سماعت جاری رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ساتھ ساتھ نظر ثانی قانون کیخلاف کیس بھی سنا جائے اگر نیا قانون برقرار رہا تو پھر پنجاب کے عام انتخابات سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست لارجر بینچ سن لے گا۔ انھوں نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظر ثانی کا نیا قانون آئین سے متصادم اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تسلسل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ایک بات اچھی ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے معاملہ عدالت پر چھوڑا، جو قانونی بات ہے، ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟ انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پنجاب الیکشن کیس سنا جائے کیونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں جو معاملہ تھا وہی نظر ثانی قانون میں ہے جبکہ عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے اور حکم متناعی نظر ثانی قانون پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ عدالت کے حکم امتناعی کی وجہ سے نظرثانی ایکٹ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس پر لاگو نہیں ہوتا ۔پی ٹی آئی کے وکیل نے تجویذ دی کہ عدالت پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریبا ہوچکے، اب کیس مکمل کرلینا چاہیے۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا اگر روویو ایکٹ لاگو ہوچکا ہے توعدالت کیسے پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس سنے۔ جسٹس منیب اختر نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہوگا، آپ بتائیں کہ کیسے ریویو ایکٹ کا اطلاق پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس پر نہیں ہوتا؟،کیا ہم پرانے قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست سنے؟ علی ظفر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس پرانے قانون کے تحت ہی سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس پہلے ہوئے فیصلے کیخلاف ایک طرح کی اپیل ہے اور اپیل کی بھی حدود ہوتی ہیں، یہ بالکل نیا کیس نہیں۔ چیف جسٹس نے پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس میں الیکشن کمیشن کے دلائل ہوچکے ہیں لیکن اگر معاملہ لارجر بینچ سنتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کو دلائل دینا ہونگے۔

اہم خبریں سے مزید