• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بار بار قانون معطل نہیں کرسکتے، ریویو ایکٹ کیخلاف کیس مضبوط نہ ہوا تو لائحہ عمل طے کریں گے، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی پی ٹی آئی کے وکیل کی استدعا مسترد کر دی۔ جبکہ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کو سپریم کورٹ رویوویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیخلاف درخواست کے فیصلے تک زیر التوا رکھنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا منظور کر لی۔ عدالت نے نظر ثانی کے نئے قانون کے خلاف مقدمے میں فریق بننے کی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دئیے کہ ہم نے پہلے ایک قانون کو معطل کیا ہے ، دوبارہ ایک اور قانون کو معطل نہیں کر سکتے، اپیل اور نظر ثانی میں بہت فرق ہے لیکن نظر ثانی کے نئے قانون سے اپیل اور نظر ثانی کو یکساں کر دیا گیا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا اب اس اپیل کیخلاف بھی نظر ثانی میں جانے کا آپشن ہو گا؟ ریویو ایکٹ کیخلاف کیس مضبوط نہ ہوا تو لائحہ عمل طے کرینگے، چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ معاملات جلد بازی کے بجائے تحمل سے دیکھے جائیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا نظرثانی اور اپیل دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں ، آئین سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا نہیں کہتا صرف نظر ثانی کا ذکر ہے ، جب آئین میں اپیل نہیںتو ان قوانین میں کس طرح اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے۔منگل کو سپریم کورٹ میں پنجاب الیکشن اور ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے نظر ثانی کے نئے قانون کو معطل کرکے معاملہ آٹھ رکنی لارجر بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ وفا قی حکومت نے ریویو ایکٹ اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نام سے دو مختلف قوانین بنائے ہیں لیکن دونوں قوانین کی متعدد شقوں میں مماثلت ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں پھر دونوں قوانین میں کیا یکساں ہے؟ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ کہ ریویو ایکٹ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے جبکہ عدلیہ کی آزادی میں بھی مداخلت ہے۔

اہم خبریں سے مزید