• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیگلیریا‘‘ ناک کے ذریعے دماغ میں جاکر اس کی جھلیوں کو بطور غذا کھاتا ہے

ڈاکٹر محمد انعام خان

ایسوسی ایٹ پروفیسران میڈیسن ، جے پی ایم سی

آج کل معاشرے میں ایک خطرناک بیماری کاخوف پھیلا ہوا ہے،جس کا نام ہے ’’نیگلیریا فالری ‘‘(naegleria fowleri) اس بیماری کے بارے میں یہ واضح ہے کہ یہ وائرس اور بیکٹیریا کی وجہ سے نہیں لگتی، جس جراثیم کی وجہ سے یہ لگتی ہے، اس کو امیبا(Amoeba)کہا جاتا ہے ۔ یہ وائرس اور بیکٹیریا سے مختلف ہوتاہے اورانسانوں کو متاثر کرتاہے۔ نیگلیریا کیا ہے ،یہ امیبا صاف میٹھے اور گرم پانی میں نشوونما پاتا ہے۔ 

یہ کھارے اور نمکین پانی میں نشوونما نہیں پاسکتا اور ساتھ میں اگر میٹھے پانی میں کلورین یا کسی اور جراثیم کش محلول کو ملایا جائے تب بھی یہ نشوونما نہیں پاسکتا۔ اس کی اور بھی اقسام ہیں لیکن انسانوں کو صرف فالری (Fowleri)قسم ہی متاثر کرتی ہے۔نیگلیریا یا فالری سے آلودہ پانی میں جب انسان نہاتے ہیں تو یہ ناک کے ذریعے حلق میں چلاجاتا ہے اور ناک میں جو سونگھنے کی حس (Smell Sense)والے خلیے ہوتے ہیں ان کا رابطہ براہ راست دماغ سے ہوتا ہے۔ اور اس طرح یہ ہماری ناک سے ہوتے ہوئے دماغ میں چلا جاتا ہے دماغ میں پہنچتے ہی یہ اپنی تعداد کو بڑھاتا ہے اور ہمارے دماغ اوراس کی جھلیوں کو بطور غذا کھانا شروع کردیتا ہے۔ 

اس عمل کے نتیجے میں جو بیماری یہ ہمارے دماغ کو کھانے سے پیدا کرتا ہے، اس کو میڈیکل کے شعبے میںPAM(Primary amebic meningoencephalitis) کہتے ہیں۔ اس پورے عمل کا کل دورانیہ ایک سے دو ہفتے تک ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارے ناک میں نیگلیریا کے داخل ہونے سے اور جان لیوا ثابت ہونے تک ہیں۔ نیگلیریا تالابوں، جوہڑوں اور سوئمنگ پولز میں نہانے سے لگنے کے علاوہ ہمارے گھروں میں میٹھے پانی جو کہ نلکوں میں آتا ہے۔ اس سے بھی لگ سکتی ہے جیساکہ وضو اور غسل کے دوران ناک میں پانی ڈالنے سے۔

اس بیماری کی شدت اور مضریت بہت زیادہ ہے اور تقریباً سب ہی مریضوں میں یہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس کا علاج تقریباً ناممکن ہے لیکن احتیاطی تدابیر کرکے اور بہتر آگاہی سے اس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس بیماری سے مریض کی جان جانے کی شرح 95 فی صد ہے۔ایک اہم اورحوصلہ افزا بات یہ ہے کہ انسان کے حلق اور ناک میں متاثر پانی سے چلا جاتا ہے لیکن یہ وہاں موجود رہتا ہے اور متاثرہ فرد کے دماغ میں سرائیت نہیں کرتا اور یہ بات تحقیق سے ہی پتہ چلی ہے کہ یہ کچھ لوگوں کے ناک اور حلق میں رہ کر بھی دماغ تک نہیں جاتا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ معاشرے میں بہت کم لوگوں کو متاثر کرتا ہے جیساکہ ہم نے بہت سی اور دوسری بیماریوں میں دیکھا جن کا تناسب معاشرے میں بہت زیادہ ہے۔تیسری اہم بات کہ یہ ایک متاثرہ شخص سے سانس، ہوا یا ایک ساتھ بیٹھنے اور پانی پینے سے نہیں لگتا۔

نیگلیریا سےبچاؤ

٭گھریلو پانی کی انڈر گراؤنڈ ٹینکیوں میں کلورین کا مناسب استعمال۔

٭وضو اور غسل کرتے وقت پانی ڈالنے کے بعد اس کو زور سے واپس نکالیں۔

٭واٹر پارکس میں نہانے سے گریز کریں۔

٭پانی ہمیشہ اُبال کر پئیں۔

٭واٹر پارکس میں صاف پانی کے بجائے نمکین اور سمندری پانی کا استعمال کریں اور اگر صاف پانی کا استعمال کررہےہیں تو کلورین یا دیگر جراثیم کش محلولوں کا استعمال لازمی کریں۔

علامات

اس بیماری کی علامات بالکل گردن توڑ بخار کی طرح ہوتی ہیں، جس میں سر درد، گردن درد، متلی، اُلٹیاں، بخار اور سب سے آخر میں بے ہوشی شامل ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے ادویات دستیاب ہیں لیکن جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو بہت وقت گزر چکا ہوتا ہے اور تشخیص میں بھی کچھ وقت لگتا ہے علاج تشخیص کے بعد ہی شروع ہوتا ہے ۔اُس وقت تک بیماری کی شدت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس بیماری میں جان جانے کی شر ح اتنی زیادہ ہے۔

صحت سے مزید