• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ایشیا کپ، پی سی بی اپنے کارڈ درست انداز میں کھیلنے میں کامیاب

آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا اور ویسٹ انڈیز کا شمار دنیا کی صف اول کی ٹیموں میں ہے یہ تمام ٹیمیں اور دنیا کے سپر اسٹار کرکٹرز گذشتہ چند سالوں میں کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن پاکستان دشمنی میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور پاکستان آنے سے انکاری ہے۔ بلکہ چند ماہ سے تو بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان میں ایشیا کپ کا ایک بھی میچ نہ ہو لیکن پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کی کوششیں رنگ لائیں اور ان کا منفرد ہائبرڈ ماڈل ایشین کرکٹ کونسل نے مان لیا۔ اس ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے شروع کے چار میچ پاکستان میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد تمام ٹیمیں اپنا بوریا بستر گول کر کے ایک نیوٹرل وینیو پر چلی جائیں گی اور ٹورنامنٹ کے بقیہ میچ سری لنکا میں ہوں گے۔

بھارت کے پاکستان آنے سے انکار کے بعد پی سی بی نے دو مقامات پر ایشیا کپ میزبانی کرنے کی تجویز دی تھی کہ بھارت اپنے میچ نیوٹرل مقام پر کھیلے گا۔پاکستان اس سال اگست ستمبر میں پندرہ سال کے وقفے کے بعد ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کرےگا تاہم2008کی طرح اس بار بھارتی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کا ہائبرڈ ماڈل کئی ہفتوں کی کوششوں کے بعد منظور ہوگیا۔ پاکستان کو ایشیا کپ کے چار میچوں کی میزبانی مل گئی اور بقیہ میچ اور فائنل سری لنکا میں ہوں گے۔ یہ فیصلہ ایشین کرکٹ کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ پاکستان اس بار ایشیا کپ کا میزبان ملک ہے۔ 

ایشیا کپ 31 اگست سے 17 ستمبر تک کھیلا جائے گا جس میں پاکستان سمیت بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور نیپال کی ٹیمیں حصہ لیں گی ٹیموں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے۔پاکستان کے گروپ میں بھارتی اور نیپال کی ٹیمیں ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں بنگلہ دیش،سری لنکا اور افغانستان کی ٹیمیں ہیں ہر گروپ کی دو ٹیمیں سپر فور کے لئے کوالی فائی کریں گی۔پاکستان اور نیپال کا میچ لاہور میں کھیلا جائے گا۔ 2008 میں کراچی میں ایشیا کپ کھیلا گیا تھافائنل میں سری لنکا نے بھارت کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان کو پہلی بار کسی بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی ملی ہے۔

نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پچھلے پندرہ ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے غیرمعمولی اہمیت کی حامل دو طرفہ سیریز اور دو ایچ بی ایل پی ایس ایل کا کامیابی سے انعقاد کیا ہے۔ ان ایونٹس میں دنیا کے صف اول کے کرکٹرز نے حصہ لیا اور پاکستان میں شاندار انتظامات اور میزبانی سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔نجم سیٹھی نے یقین ظاہر کیا کہ ایشیا کپ اور پھر فروری مارچ 2025میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں شریک ٹیموں کو بھی ہماری بہترین میزبانی اور انتظامات دیکھنے کو ملیں گے۔

وہ ایشین کرکٹ کونسل اور سری لنکا کرکٹ سے بات چیت کرکے لاجسٹک اور آپریشنل معاملات کو طے کریں گے تاکہ ایونٹ کی تیاریوں اور پلاننگ کو باقاعدہ شروع کیا جاسکے۔ انہوں نے ایشین کرکٹ کونسل ۔ شریک ٹیموں، کمرشل پارٹنرز اور پاکستان میں شائقین کو یقین دلایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ایشیا کپ کی میزبانی کے سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا تاکہ اس ایونٹ کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکے شریک ٹیموں کے لیے بہت اہم ہے جو اکتوبر نومبر 2023میں بھارت میں منعقدہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ہیں۔نجم سیٹھی نے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوششوں سے ایشین کرکٹ کونسل مضبوط ہوکر کام کرے گی تاکہ اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے مفاد کا تحفظ کیا جاسکے اورساتھ ہی ایمرجنگ ایشیائی ممالک کو مواقع بھی فراہم کیے جاسکیں۔

ایشین کرکٹ کونسل کا کہنا ہےکہ ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیلاجائے گا جس میں ایونٹ کے چار میچز پاکستان اور 9 میچز سری لنکا میں ہوں گے۔ایشیا کپ 2023 کے حوالے سے بھارت کی میں نہ مانوں کی رٹ برقرار ہی۔بھارت کا مؤقف ہے کہ بھارتی ٹیم ایشیا کپ کھیلنے نہ پاکستان آئے گی نہ امارات میں ایشیا کپ کھیلے گی۔ بی سی سی آئی کے صدر جے شاہ کی سربراہی میں ایشین کرکٹ کونسل کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کے تجویز کردہ ہائبرڈ ماڈل کو تسلیم کرلیا گیا۔ہائبرڈ ماڈل کے تحت ایشیا کپ کے ابتدائی میچ کی میزبانی پاکستان کرے گا جب کہ بقیہ میچز سری لنکا میں کرائے جائیں گے۔

پاکستان ایشیاکپ کے 4 میچز کی میزبانی لاہور کے تاریخی قذافی اسٹیڈیم میں کرے گا ، بقیہ 9 میچز سری لنکا میں کھیلے جائیں گے پاکستانی ہائبرڈ مادؒ کی منظوری کے بعد اب پاکستانی ٹیم اکتوبر میں ورلڈ کپ کھیلنے بھارت جائے گی۔ نجم سیٹھی نے ورلڈ کپ کے کارڈ کو ذہانت سے کھیلا اور بھارتی بورڈ کے سیکریٹری اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کو مجبور کیا کہ وہ پاکستانی ماڈل پر اتفاق کریں۔ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کو37دن میں9ون ڈے انٹر نیشنل میچ کھیلنا ہوں گے۔ پاکستانی ٹیم چھ سینٹرز پر یہ میچ کھیلے گی۔بنگلورو اور کول کتہ کے لئے دوبار سفر کرے گی۔

پاکستانی کرکٹرز کو بھارتی شہروں میں چارٹرڈ فلائٹس پر سفر کرنا ہوگا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم اکتوبر میں بھارت میں ورلڈ کپ میں اپنی مہم کا آغاز دو کوالی فائر ٹیموں کے خلاف حیدرآباد دکن میں کرے گی۔جس کے بعد پاکستان کو احمد آباد کے لئے سفر کرنا ہوگا جہاں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا میچ بھارت کے خلاف نریندر مودی میں ہوگا۔ ورلڈ کپ کےمجوزہ شیڈول کے مطابق پاکستانی ٹیم چھ اور12اکتوبر کو دو کوالی فائر ٹیموں کے خلاف اپنے ابتدائی دو میچ حیدرآباد میں کھیلے گا۔15اکتوبر کو بھارت کے خلاف میچ کھیلنے کے بعد پاکستانی ٹیم بنگلورو پہنچے گی۔ 20 اکتوبر کو چنا سوامی اسٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ ہوگا۔

بنگلورو سے پاکستانی ٹیم چنائی میں 23 اکتوبر کو افغانستان اور27 اکتوبر کو جنوبی افریقا کے خلاف میچ کھیلے گی۔21اکتوبر کو پاکستانی ٹیم کولکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ کھیلے گی۔پانچ نومبر کو پاکستانی ٹیم پھر بنگلورو جائے گی جہاں گذشتہ ورلڈ کپ کی فائنلسٹ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ ہوگا۔12نومبر کو پاکستانی ٹیم آخری میچ کھیلنے دفاعی چیمپین انگلینڈ کے خلاف ایڈن گارڈنز کول کتہ جائے گی۔ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ہمارے پُرجوش شائقین بھارتی کرکٹ ٹیم کو پندرہ سال بعد پہلی مرتبہ پاکستان میں کھیلتا دیکھ کر خوش ہوتے لیکن ہمیں بی سی سی آئی کی پوزیشن کا اندازہ ہے۔ 

پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرح بی سی سی آئی کو بھی سرحد پار کرنے کے لیے اپنی حکومت کی اجازت اور کلیئرنس درکار ہوتی ہے۔اس پس منظر میں ہائبرڈ ماڈل بہترین حل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی بھرپور وکالت کررہے تھے۔ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ ماڈل کی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ ایشیا کپ اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت کھیلا جائے گا اور ایشین کرکٹ کونسل کرکٹ کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی اور آگے بڑھتی رہے گی کیونکہ آنے والے20 ماہ برصغیر میں کرکٹ کے شائقین کی دلچسپی اور جوش وخروش کے سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ پاکستان کو تو ایشیا کپ کے چار میچ مل گئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارتی ٹیم 2025 میں آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کھیلنے پاکستان آئے گی؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے دو سال بعد پی سی بی کا چیئرمین کون ہوگا اس وقت پاکستان کا مقدمہ کون لڑے گا۔ہم تو ورلڈ کپ کھیلنے بھارت جارہے ہیں لیکن بھارت کو اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید