کراچی (نیوز ڈیسک، نیوز ایجنسی) یونان میں کشتی ڈوبنے کا حادثہ تاریخ کا بدترین سانحہ ہوسکتا ہے ، ان خیالات کا اظہار یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور یلوا جوہانسن نے ایک انٹرویو کے دوران کیا، ان کا کہنا ہے کہ اسمگلرز لوگوں کو یورپ نہیں موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں، تارکین وطن کی آمد میں 600فیصد اضافہ ہوا ہے ، لیبیا کے ساحلی شہر طبرق سے اٹلی جانے والی کشتی میں اطلاعات کے مطابق 750 سے زائد افراد سوار تھےجن میں 100سے زائد معصوم بچے اور متعدد خواتین بھی شامل تھیں، اب تک 78 افراد کی میتیں نکال لی گئی ہیں جبکہ 100 سے زائد افراد کو زندہ بچالیا گیا ہے، پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ زندہ بچنے والوں میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں،مبینہ طور پر کشتی پر 310پاکستانی سوار تھے ، اطلاعات کے مطابق کشتی حادثے میں لاپتہ 500 سے زائد افراد میں 298 پاکستانی بھی شامل ہیں،عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونانی بحریہ نے رسوں کے ذریعے سے کشتی کو ساحل پر لانے کی غلط کوشش کی اسی دوران کشتی غرق آب ہوگئی، تاہم یونانی حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے ، یورپی کمشنر برائے داخلہ یلوا جوہانسن نے کہا کہ تاحال کشتی حادثے میں ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں معلوم نہیں ہوا ہے تاہم بظاہر یہ بحیرہ روم میں پیش آنے والا بدترین سانحہ ہوسکتا ہے، انہوں نے اسمگلرز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں کو یورپ نہیں بلکہ موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں، انہیں روکنا لازمی ہے، ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک یورپ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے، انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والی کشتیوں کو استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے اسی لئے ہمیں اسمگلرز کیخلاف لڑائی اور انسانوں کی جانیں بچانے کیلئے دیگر طریق کار اختیار کرنے پڑیں گے، ہمیں انٹیلی جنس کیساتھ ساتھ دیگر خطوں کی پولیس کیساتھ مل کر تفتیش کرنا ہوگی ، اقوام متحدہ میں مہاجرین کی ایجنسی نے بحیرہ روم میں مزید سانحات سے بچاو کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں لوگوں کو بچانے کی ذمہ داری بلا تاخیر پوری کی جائے، یونانی حکام کو تارکین وطن کو کشتی کو امداد فراہم کرنے میں غفلت برتنے پر شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔