کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر فیروز جمال شاہ نے کہا ہے کہ سانحہ 9مئی کو پی ٹی آئی پشاور کی مقامی قیادت حملہ آوروں کے ساتھ آن بورڈ تھی، جیسے جیسے شناخت مکمل ہورہی ہے ہم گرفتاریاں عمل میں لارہے ہیں۔پروگرام میں اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پشاور اعجاز خان، ایڈمن آفیسر نصیراللہ، سینئر صحافی و تجزیہ کار فاطمہ نازش، شاعر و پروڈیوسر سید شہزاد بادشاہ، منیجر انجینئرنگ رفایت اللہ، سینئر پروڈیوسر اکرام اللہ مروت اور پروگرام منیجر طفیل احمد نے بھی گفتگو کی۔ بیرسٹر فیروز جمال شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ1935ء سے اب تک تمام آرکائیو یہاں موجود تھے جو9 مئی کی بربریت میں جل گئے۔ انہوں نے ریڈ زون کو چھ اطراف سے حملہ کیا ہر طرف سے آٹھ دس ہزار کا ہجوم داخل ہوا جبکہ پولیس اہلکار اس وقت ڈھائی تین سو کی تعداد میں موجود تھے۔ ہم توقع نہیں کررہے تھے جس طرح انہوں نے حملہ کیا اور آگ لگائی۔ ہم نے موقع واردات سے160 لوگوں کو گرفتار کیا اس کے بعد مزید80افراد کو شناخت کرکے گرفتار کیا۔ پشاور کی مقامی پی ٹی آئی قیادت ان کے ساتھ مکمل طور پر آن بورڈ تھی۔184 ایف آئی درج کی گئی ہیں ابھی تک3400گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ جیسے جیسے شناخت مکمل ہورہی ہے ہم گرفتاریاں عمل میں لارہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی معاونت سے ہم ریڈیو پشاور کی تعمیر نو مکمل کریں گے۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشاور دنیا کا خوش قسمت اور بد قسمت ترین شہر ہے خوش قسمت اس لئے کہ یہ صدیوں سے تہذیب، ثقافت، فنون لطیفہ کا مرکز رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ پشاور پچھلے کئی عشروں سے دہشت گردی کی زد میں ہے اور اس شہر کا کوئی چوک ایسا نہیں ہے جہاں دھماکا نہیں ہوا ہو۔9مئی کو اس شہر اور پورے پاکستان کو ایک نیا سانحہ دیکھنا پڑا جسے ہم پاکستان کا سانحہ 9/11کہہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی وہ ریڈیو پاکستان پشاور پر حملہ آور ہوگئے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر اعجاز خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ9مئی کو شرپسند دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے اور پہلے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں بنے چاغی پہاڑ کے ماڈل کو جلایا۔ پھر مرکزی گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی اور آگ بھی لگائی۔ جدید ترین آڈیٹوریم کو توڑ پھوڑ کے بعد نذر آتش کردیا۔ مرکزی عمارت میں آکر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی، یہاں کسی چیز کو نہیں چھوڑا واش روم کے نلکے، گٹر کے ڈھکن اورعمارت کا چھوٹا گیٹ بھی توڑ کر ساتھ لے گئے۔ اسٹوڈیو ایریا کو ملازمین نے اچھی حکمت عملی کے باعث جلنے سے بچا لیا۔ ان کا خیال تھا کہ نشریات بحال ہونے میں کافی عرصہ لگے گا مگر ہم نے 11مئی کو نشریات بحال کردیں۔ مظاہرین پورے انتظام کے ساتھ آئے تھے ان کے پاس پیٹرول، ڈنڈے، چھریاں، چاقو، سریئے بھی تھے۔ ہمیں زد و کوب بھی کیا۔ نیوز سیکشن میں آگ لگا دی عمارت کی چاروں منزلوں کو نذر آتش کردیا۔9 مئی کے واقعہ میں تقریباً ہر چیز جلی اور تباہ ہوئی ہے لیکن اسٹویوڈیو ایریا میں قرآن پاک کا معجزہ سامنے آیا ہے صوت القرآن کا ٹرانس میٹر جو19 گھنٹے متواترچلتا ہے اس کے کسی ایک تار کو کسی ایک چیز کو نقصان نہیں پہنچا۔ بجلی بحال ہونے کے بعد ہم نے اسے جونہی دوبارہ آن کیا تو اس نے کام شروع کردیا۔ ایڈمن آفیسر نصیر اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس روز سارے لوگ اندر گھسے تو ہم نے انہیں کافی روکنے کی کوشش کی مگر وہ رکے نہیں گراؤنڈ فلور پر انہوں نے کافی توڑ پھوڑ کی۔ ہم نے اپنے موبائل فون سے ریکارڈنگ کی بھی کوشش کی مجھے ڈنڈا مار کر میرا موبائل فون چھین لیا۔ ہم مشکل میں تھے ہم اوپر چلے گئے جب واپس نیچے آئے تو دیکھا کہ نیچے جانے کا راستہ ہی نہیں ہے نیچے آنے کی کوشش میں ہاتھ بھی جل گئے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار فاطمہ نازش نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن جو کچھ ہوا وہ بہت غیرمعمولی تھا۔ اس دن ہم نے ریڈیو پاکستان کو جلتے ہوئے دیکھا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو اس وقت تک آگ بجھی نہیں تھی۔ ایرے غیرے نہیں تھے ان کے ہاتھ میں پی ٹی آئی کے جھنڈے موجود تھے وہ عمران خان کو سپورٹ کررہے تھے ان کا یہی کہنا تھا کہ یہ جہاد ہے جس پر وہ نکلے ہیں۔ جب لوگوں سے پوچھا کہ آپ کی مرکزی قیادت کی طرف سے آپ کو اشارہ دیا گیا ہے۔ آن ریکارڈ میرے پاس موجود ہے بندے نے کہا کہ ہماری قیادت ہمارے ساتھ رابطے میں ہے وہ ہمیں بتار ہی ہے کہ آپ کا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔ شاعر و پروڈیوسر سید شہزاد بادشاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن جب میں بلڈنگ میں داخل ہوا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے اتنے خوبصورت قومی ادارے کی یہ حالت ہوگئی۔ تقسیم سے قبل پشاور مرکز معرض وجود میں آیا تھا قیام پاکستان کا اعلان بھی یہاں سے ہوا تھا قیام پاکستان کی خوشخبری یہاں سے سنائی گئی تھی۔ منیجر انجینئرنگ رفایت اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن ہم نے اپنی حکمت عملی کے تحت انجینئرنگ سیکشن کو آتشزدگی سے بچانے کی کوشش کی آگ بجھانے کی کوشش میں میرے ہاتھ بھی زخمی ہوگئے۔ ایک دفعہ منتشر ہونے کے بعد وہ پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں دوبارہ اندر داخل ہوئے انہوں نے سب سے پہلا حملہ ہماری مرکزی بلڈنگ پر کیا۔ سینئر پروڈیوسر اکرام اللہ مروت نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ9 مئی نے پوری دنیا کو رلا دیا ہے۔ میرے ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی اس دن آتشزدگی کی نذر ہوگئے۔ پروگرام منیجر طفیل احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ9 مئی کو ان لوگوں نے پہلے آڈیٹوریم کو آگ لگائی۔ انہوں نے بلڈنگ کو آگ نہیں لگائی انہوں نے قومی ورثے کو آگ لگائی ایک طرف آگ جل رہی تھی دوسری طرف ہمارا دل جل رہا تھا۔ اس تباہی کے باجود ہم نے اپنی نشریات کو 24 گھنٹوں میں بحال کیا۔