• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی،۔۔۔۔ تنویر زمان خان: لندن
گزشتہ دنوں ہمارے دوست اکرام خان بڑی زندہ دلی کے ساتھ کینسر سے لڑتے لڑتے راہی ملک عدم ہوگئے۔ میں نے انہیں میرے دوست کی بجائے ہمارے دوست کہا کیونکہ وہ سب دوستوں کو تو الگ ہر انسان کو ہی اتنی محبت سے ملتے تھے کہ ان کے اندر صوفی منش انسان بآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ اکرام خان1939ء میں انڈین پنجاب کے شہر ہوشیارپور میں پیدا ہوئے، پھر لاہور آگئے۔ 1961ء میں پڑھائی کی غرض سے انگلینڈ آئے تو لاء میں داخلہ لے لیا پھر اکاؤنٹس شروع کردی، ان کی آئرش بیوی جوکہ ان کے دوست کے جاننے والوں میں سے تھی، اس سے1963ء میں شادی کرلی، فیملی نے خوب مخالفت کی اور اکرام خان کی شادی فیملی کی کسی لڑکی سے کرنا چاہی لیکن ہیگی کے ساتھ اکرام خان کی محبت جیت گئی اور تادم آخر ہیگی اور اکرام خان کی جوڑی دوستوں میں مثالی جوڑی کہلاتی رہی۔ ہیگی مہمان نوازی میں ہمیشہ اکرام خان سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی۔ اکرام خان نے انگلینڈ آکے سرجیکل یا طبی آلات کا بزنس شروع کیا اور پاکستان ٹریڈ سرجیکل ایسوسی ایشن بنائی، پھر برطانیہ میں معذور لوگوں کے لیے پاکستان سیالکوٹ سے اسپیشل اشیا منگوانی شروع کیں۔ اکرام خان برطانیہ میں بہت سی پاکستانی اشیائی درآمد شروع کی پارٹنرز میں سے ہیں۔ آج کل برطانیہ میں پاکستانی آموں کی بہت مشہوری اور چرچا ہے لیکن آپ یہ جان کے حیران ہوں گے کہ1991ء میں پہلی مرتبہ اکرام خان نے لندن میں پاکستانی آموں کی نمائش کرائی۔ اس کے بعد پاکستانی آم برطانیہ میں باقاعدہ کمرشل سطح پر آنے شروع ہوئے۔ اکرام پاکستانی چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ یوکے پاکستان کلچرل فاؤنڈیشن کے بانی سربراہ رہے، جس کے تحت برطانیہ میں درجنوں بڑے بڑے فنکشن ہوئے جن میں پاکستان کے کئی سربراہان مملکت کے علاوہ برطانیہ کے بے شمار لیڈر شریک رہے، میں بھی ایک زمانے میں2015ء میں اس تنظیم کا سیکریٹری جنرل رہا اور اکرام خان کے ساتھ مل کر ہم نے لندن (لوگن ہال) میں کامیاب بسنت بہار شو کیا۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں فیض کلچرل فاؤنڈیشن جس کا کہ میں بانیوں میں سے تھا جو2009ء میں بنائی گئی تھی اور میں اس کا2014ء تک جنرل سیکریٹری رہا۔ جس کے تحت ہونے والے چار پانچ فیض میلے ہوئے، جن میں اکرام خان نے ہمیشہ بہت تعاون کیا۔ اکرام خان فقط اسی کے ساتھ نہیں بلکہ ہر جگہ کلچرل سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ اکرام خان کمیونٹی کے ایسے لیڈر تھے جنہیں پاکستان ایمبیسی یا ہائی کمیشن میں آنے والا ہر ہائی کمشنر فوری طور پر ملنے کا خواہاں ہوتا۔ اکرام خان مولوی اور پیروں کے ہمیشہ سخت مخالف رہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مولوی فی سبیل اللہ فساد ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ اندر کے بت کو توڑنا بہت ضروری ہے، وہ سوشل جسٹس کے قیام کو ہی مقصد حیات قرار دیتے تھے، اکرام خان نے ایک دفعہ برمنگھم میں سنگل کنٹری نمائش کروائی، جس میں فقط پاکستان کی بنی یا پاکستانیوں کی بنائی گئی مصنوعات کو بڑے پیمانے پر متعارف کرایا گیا۔ اکرام خان سیرو تفریح کے بے حد شوقین تھے اور ہر سال ایک دو ملکوں کا تفریحی پروگرام ضرور رکھتے، انہوں نے عراق، کیوبا، چین، روس، ویتنام، انڈیا اور اسرائیل سمیت بے شمار ملک دیکھ رکھے تھے، میرا ان کے ساتھ اسرائیل کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا، کہتے ہیں جس شخص کو جاننا ہو، اس کے ساتھ سفر ضرور کریں تو مجھے اپنی شریک حیات کے ہمراہ اسرائیل کے دورے پر اکرام خان اور ان کی شریک حیات ہیگی کو قریب سے جاننے کا موقع ملا، ہم نے اکٹھے وہاں کے چیمبر آف کامرس اور سفیروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں جانا اور سمجھا، یہ تمام چیزیں آج جب اکرام خان ہم میں نہیں ہیں تو مزید یاد آرہی ہیں،اپنی زندگی کے آخری دو برسوں میں میرے ہی بہت اصرار پر اکرام خان نے اپنی یادوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’کیف جہد‘‘ ہے جسے انگریزی میں( Struggle is pleasvre) کا نام دیا گیا۔ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اس کتاب کی تکمیل اکرام خان کیلئے گویا زندگی کی تکمیل تھی، یہ کتاب ان کی وفات سے چند ماہ قبل ہی مکمل ہوئی، اکرام خان گو آج ہم میں نہیں لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اکرام خان ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بھرپور زندگی کو جیا۔
یورپ سے سے مزید