ابو عبید عطاری
ذُوالحج کا چا ند نظر آتے ہی نَنّھے میاں نے ایک ہی رَٹ لگالی تھی کہ بس گھر میں اس دفعہ بکرا میری پسند کا آئے گا ، دو دن کے بعد ننھے میاں اپنے ابو اور چاچو کے ساتھ جاکر ایک سفید رنگ کا پیارا ، گول مٹول سا بکرا لے آئے ، ننھے میاں نے گھر میں آتے ہی اس کا نام سونُو رکھ دیا ، یہ نام گھر والوں کو بھی پسند آیا۔
ننھے میاں بکرے کی خدمت میں لگ گئے سونو ننھے میاں کا دوست بن گیا وہ اس کی کمر اور سَر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ، چاچو کے ساتھ مل کر اس کے آگے روزانہ دانہ پانی رکھتے اور شام کے وقت گھمانے بھی لے جاتے تھے، عید سے ایک دن پہلے دادی جان نے اچانک ننھے میاں سے کہا ،ننھے میاں ! کل آپ کا پیارا دوست سونو اللہ پاک کی راہ میں قُربان ہوجائے گا ، ‘‘ یہ سُن کر اَفْسُردَہ ہوگئے اور کہنے لگے، دادی کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سونو کی جگہ کسی اور بکرے کی قربانی کردیں؟ ’’مگر کیوں ؟‘‘ دادی نے پوچھا۔’’دادی ! یہ میرا دوست بَن گیا ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے ہم اسے گھر میں ہی رکھ لیتے ہیں ، دادی نے ننھے میاں کی سے پوچھا،’’ آپ یہ بتائیے ہم بڑی عید کو جانور قربان کیوں کرتے ہیں؟ ‘‘’’ سب قربانی کرتے ہیں اس لئے ہم بھی قربانی کرتے ہیں ، ننھے میاں کو جو جواب سمجھ میں آیا انہوں نے کہہ دیا ۔’’ نہیں میرے بچے! یہ وجہ نہیں ہے ، اللہ پاک کےنبی حضرت ابراہیم علیہِ السَّلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہِ السَّلام سے بہت پیار کرتے تھےتین راتوں تک حضرت ابراہیم علیہِ السَّلام نے خواب دیکھا کہ انہیں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حُکم دیا جارہاہے۔
حضرت ابراہیم علیہِ السَّلام نے اپنے بیٹے کو خواب بتایا تو وہ کہنے لگے ،’’آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاگیا ہے۔‘‘ آپ مجھےصبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ دادی ،پھر کیا حضرت ابراہیم علیہِ السلام نے اپنے پیارے بیٹے کو قربان کردیا؟‘‘ ننھے میاں درمیان میں بول پڑے ۔دادی نے کہا، حضرت ابراہیم علیہِ السَّلام نے جیسے ہی حضرت اسماعیل علیہِ السَّلام کو زمین پر لٹا کر ان کے گلے پر چھری چلائی تو چھری نے اپنا کام نہ کیا، ایک آواز آئی،’’ اے ابراہیم بےشک تو نے خواب سچ کردکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ “ ادھر اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام جنّت سے ایک دُنبہ لےکر آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہِ السَّلام نے اپنا سَر آسمان کی طر ف اٹھایا اور جان گئے کہ اللہ پاک کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وقت گزر چکا ہے اور بیٹے کی جگہ اب اس دنبے کوقربانی کے لئے بھیجا گیا ہے اس کے بعد اس دنبے کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا گیا۔
ننھے میاں، دیکھا آپ نےحضرت ابراہیم علیہِ السَّلام نے اللہ پاک کے حکم کے آگے اپنا سَر جھکادیا اور پیارے بیٹے کو بھی قربان کرنے سے انکار نہیں کیا۔ ان کاقربانی کا جذبہ اللہ کو بہت پسند آیا ۔ اس لیے مسلمان ہر سال ذالحج کے موقعہ پر قربانی کرتے ہیں۔ ان کا جذبہ ہمیں سبق دیتاہے کہ ہم بھی اللہ کی راہ میں خوشی خوشی قربانی کریں‘‘ ۔’’ دادی جان، اب مجھے سمجھ میں آگیا ہے کہ مجھے بھی اپنا پیارا “ سونو “ اللہ پاک کو خوش کرنے کےلئے قربان کرنا چاہیے ، ننھے میاں نے سَر ہلاتے ہوئے کہا۔ دادی نے خوش ہوکر ننھے میاں کو اپنے سینے سے لگالیا۔