ضمیر درویش
اک سندر سا مورتھا بن میں، جیسے کوئی پھول چمن میں
پنکھ اس کے تھے رنگ برنگے، من موہک اور پیارے پیارے
چال تھی ایسی چلتا تھا جب، دیکھتے ہی رہ جاتے تھے سب
پنکھوں ہی کا تاج تھا اس کا،سب چڑیوں پر راج تھا اس کا
آگے پیچھے گھوم گھوم کر، ناچتا تھا جب جھوم جھوم کر
ایسا ہوتا تھا وہ منظر، دیکھنے لگتے تھے سب رک کر
یوں ہی ناچتا جاتا تھا وہ، پھولا نہیں سماتا تھا وہ
سوچتا تھا بس میں ہوں زمیں پر، سب سے حسیں ہیں مرے پر
پھر وہ کچھ تھرٌا جاتا تھا ، من ہی من گھبرا جاتا تھا
یہ تو غرور ہے سوچتا تھا وہ ،غلط سرور ہے سوچتا تھا وہ
ڈالتا تھا پیروں پہ نگاہیں ، بھرنے لگتا تھا وہ آہیں
سوچتا تھا ہیں کتنے بھدٌے ، ناچ رہا ہوں جن پیروں سے
نادم ہوتا تھا پھر خود پر ، توبہ کرتا تھا رو رو کر
اپنے غرور کو توڑتا تھا وہ ، رب سے ناتہ جوڑتا تھا وہ
اپنے سر کو جھکا جھکا کر، کہتا تھا آواز لگا کر
حسن ہو طاقت ہو یا دولت ،سب ہے مالک تری عنایت
ہم نہ کسی شے پر اترائیں، تیرے آگے سر کو جھکائیں
تُو مالک ہے تجھ سے ڈریں ہم، تیری عطا پر شکر کریں ہم