• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ہم شوبزنس انڈسٹری ترقی کررہے ہیں یا پھر زوال کا شکار ہیں۔ 90 کی دہائی میں ایک طرف بالی وڈ کی فلمیں کیسٹ کے ذریعے پاکستان میں بھرپور دل چسپی سے دیکھی جاتی تھیں۔ کیسٹ کا کرایہ 10روپے ہوتا تھا، تو دوسری جانب ان بھارتی فلموں کا مقابلہ کامیڈی کِنگ عمر شریف اور معین اختر کے اسٹیج ڈراموں کی کیسٹ بھی کرائے پر دستیاب ہوتی تھیں۔ وڈیو سینٹر پر بھارتی فلموں کا مقابلہ کراچی میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے کیا کرتے تھے۔ 80,70اور 90میں ہم پڑوسی ملک کی شوبزنس کی انڈسٹری کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے۔ ہماری ان گنت فلمیں ایسی ہیں، جنہیں وہاں نقل کیا گیا۔ 

فلمیں تو دُور کی بات ہے، ہمارے اسٹیج ڈراموں کے کئی مقبول سین اور حصوں کو بالی وڈ فلموں میں نقل کیا گیا۔ یہ تھی کراچی میں پیش کئے جانے والے اسٹیج ڈراموں کی طاقت اور اہمیت، پھر کیا ہوا، آہستہ آہستہ کراچی کے اسٹیج ڈراموں میں رقص شامل کیے جانے لگے اور جُملوں کا معیار بھی گرتا چلا گیا اور ان سب چیزوں کی وجہ سے اسٹیج ڈراموں کی ساکھ خراب ہوئی۔ فیملیز نے ان ڈراموں کو دیکھنا چھوڑ دیا۔ پچھلےکئی برسوں میں ’’بکرا قسطوں پر‘‘ ایک ایسا ڈراما ثابت ہوا،جس کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔ اس ڈرامے نے کئی فن کاروں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی تھی۔ اس کی شہرت اور کام یابی کے بھارت میں بھی بہت چرچے تھے۔

بالی وڈ کے سپر اسٹار عامر خان، سلمان خان، شاہ رُخ خان سمیت دیگر فن کار اس ڈرامے کے دیوانے تھے، یہی وجہ تھی، جب پاکستانی مزاحیہ فن کار بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر قہقہوں کا طوفان برپا کرنے گئے، تو ہر طرف ان کی دُھوم مچ گئی۔ معروف مزاحیہ فن کار کاشف خان، رئوف لالہ، شکیل صدیقی، پرویز صدیقی، عرفان ملک اورعلی حسن کی جوڑی نے کئی برس تک پڑوسی ملک کے شائقین کو اپنا دیوانہ بنا رکھا۔ اس وقت تک کپل شرما کا نام و نشان نہیں تھا، جو آج سب سے بڑے مزاحیہ فن کار بن کر سامنے آئے ہیں۔ کپل شرما سے قبل لافٹر چیلنج کا مقابلہ رؤف لالہ نے جیتا تھا۔ انہیں انعام کے طور پر قیمتی کار بھی دی گئی تھی۔ 

اس کے اگلے برس کپل شرما نے مقابلہ اپنا نام کیا تھا۔ کپل شرما کو انعام کی ٹرافی کامیڈی کِنگ عمر شریف نے پیش کی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی مزاحیہ فن کاروں کی پڑوسی ملک میں شان دار اور لاجواب پرفارمنس سے ان کو مالی فوائد بھی حاصل ہوئے۔ ان فن کاروں میں طویل انِنگ کھیلنے والے شکیل صدیقی ثابت ہوئے۔ انہوں نے شاہ رُخ خان اور سلمان خان سمیت بالی وڈ کے صفِ اوّل کے کئی فن کاروں کو اپنی عمدہ پرفارمنس کی بدولت دیوانہ بنا رکھا تھا۔ ہم نے اپنے ممبئی دورے کے موقع پر شکیل صدیقی کی عزت اور مقام اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہاں انہیں سب ہی ’’شکیل جی شکیل جی‘‘ کہہ کر مخاطب ہو رہے تھے۔ عرفان ملک اور علی حسن کی جوڑی نے بھی کئی سپراسٹارز کے دل جیتے۔ کاشف خان نے بھی خُوب رنگ جمایا اور اپنی جگہ بنائی۔

تو ہم بات کر رہے تھے کہ کراچی کے اسٹیج ڈراموں کی آسمان سے باتیں کرتی مقبولیت کی ، خوشی کی بات ہے کہ ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ فن کار کراچی والوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لیے ایک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ڈرامے کی خاطر سارے اختلافات بُھلا دیے ہیں۔ سب نے فیصلہ کیا ہے کہ متحد ہو کر کراچی کے اُداس عوام کے آنسو چُرائیں گے۔ شکیل صدیقی، رؤف لالہ، کاشف خان، پرویز صدیقی، علی حسن، عرفان ملک، ذاکر مستانہ، ولی شیخ اور دیگر، سینئر اداکار شہزاد رضا کی سرپرستی میں اس مرتبہ عیدالاضحی پر ایک نہیں دو قہقہوں سے بھرپور ڈرامے پیش کیے، جنہیں شائقین نے بے حد پسند کیا۔ اس سے قبل ان ڈراموں کی تعارفی تقاریب میں سب کو متحد دیکھ کر دِل باغ باغ ہو گیا تھا۔ سب نے عمر شریف اور معین اختر کے مِشن کو آگے بڑھانے کی بات کی، فیملی اور معیاری ڈرامے پیش کرنے کا عزم کیا۔ ان ڈراموں کی ریہرسلز میں فن کاروں کی محنت دیکھنے میں آئی۔

سب سے پہلے ہم مزاحیہ ڈراما ’’ہم سب بکرے ہیں‘‘ کے پروڈیوسر شہزاد عالم کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ہی سب فن کاروں کو اکٹھا کیا اور ایک پیج پر لے کر آئے۔ شہزاد عالم کا کہنا تھا کہ معیاری اور فیملی ڈراموں کی ابتدائی ہو چکی ہے۔ بس اب اسے کام یابی کے ساتھ آگے بڑھانا ہے۔ مجھے شکیل صدیقی، رئوف لالہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے تقریباً 35برس ہو چکے ہیں۔ مجھے شکیل صدیقی اسٹیج ڈراموں کی دُنیا میں لے کر آئے تھے۔ رئوف لالہ نے ہمیشہ عمدہ ڈرامے لکھے۔ 

شہزاد عالم نے مزید بتایا کہ پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر تھیڑ ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے کراچی میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں صرف تہواروں یا عیدین پر ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہم متواتر ڈرامے پیش کرتے رہے تو پھرسے فیملیز آنا شروع ہو جائے گی۔ شکیل صدیقی، رئوف لالہ کی صورت میں ہمارے پاس مضبوط ٹیم ہے، جو عوام کے دل جیتنے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ فلیٹ کلب، جو میوزیکل پروگراموں کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ ایک زمانے میں وہاں بھی ہم نے سپر ہٹ اور لاجواب ڈرامے پیش کئے۔ ’’ہم سب بکرے ہیں‘‘ نے ماضی کے ڈراموں کی یادیں کیں۔‘‘ بہت زیادہ فعال اور سرگرم مزاحیہ فن کار پرویز صدیقی کا کہنا تھا کہ آج کل ڈراموں کے حوالے سے بہت اچھی باتیں کی جارہی ہیں۔ 

باتیں بہت ہو گئیں، اب ہم سب کو پریکٹیکل ہونا پڑے گا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، جب سے سوشل میڈیا آیا ہے۔ ہنسانا آسان نہیں رہا ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھوں میں 24گھنٹے انٹرٹینمنٹ رہتا ہے۔ اب کوئی بہترین لائیو شو کرے گا، تو لوگ ڈرامے دیکھنے آئیں گے۔ ڈرامے کے لیے پبلسٹی اور اسپانسرز ضروری ہو گئے ہیں۔ اب فن کاروں کے ناموں پر شائقین اس طرح نہیں آتے، جس طرح عمر شریف اور معین اختر کے دور میں آتے تھے۔ اس زمانے میں ڈراما صرف ٹکٹوں پر چلتا تھا۔ اس زمانے میں اسپانسرز کا وجود نہیں تھا۔ فلم اور ٹی وی ڈراموں کو اشتہارات کی ضرورت ہوتی تھی۔ 

لاہور میں اس وقت 10تھیڑ ہیں، جو کام یابی سے چل رہے ہیں۔ کراچی میں تین تھیڑ ہیں اور اس میں بھی ڈیڑھ چلتا ہے۔ سب فن کاروں کو متحد ہونا پڑے گا۔ میں جب عید کا ڈراما کرکے گھر جارہا ہوتا تو مداح راستے میں پوچھتے ہیں، کیا تھیڑ ختم ہوگیا۔ میں ان کو بتاتا ہوں، بھائی ابھی بھی ڈراما کرکے آرہا ہُوں۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے ڈراموں کی پبلسٹی معیاری نہیں رہی۔ جب لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا، تو ڈراما دیکھنے کون آئے گا۔ آج پانچ روپے کے شیمپو کے لیے کروڑوں کی پبلسٹی کی جاتی ہے۔ سال بھر مسلسل ڈرامے ہونے چاہئیں۔‘‘

بالی وڈ کے سپر اسٹارز کو اپنا دیوانہ بنانے والے نامور اداکار شکیل صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’ہم سب بکرے ہیں‘‘ کے پروڈیوسر شہزاد عالم ایسے عمدہ انسان ہیں، جو فن کاروں کے ساتھ آخری وقت تک کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں فن کاروں کو مشکل پیش نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ فن کار اور پروڈیوسر مل کر ڈراما پیش کررہے ہیں۔ شکیل صدیقی نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اب وہ دور آگیا کہ مارکیٹنگ کے بغیر ڈراما کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے ڈرامے اتنے مضبوط ہوں کہ ہمیں اسپانسرز کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ جیسے ماضی میں ہم اسٹیج ڈرامے کرتے تھے۔ 

اب ہم سب ایک ہوگئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ پھر سے معیاری اور قہقہوں سے بھرپور ڈراما پیش کریں۔ ’’ہم سب بکرے ہیں‘‘ کو رئوف لالہ نے لکھا تھا۔ اس کی نوک پلک ہم سب نے مل کرٹھیک کی۔ یہ ڈراما چار دن تک مسلسل پیش کیا جاتا رہا۔ ہم نے اس کے کل آٹھ شوز کیے، یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں ہم ڈراموں کے 22شوز کرتے تھے۔ یہ ہم سب فن کاروں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں صرف چار دن کا ڈراما کوئی بہت خوشی کی بات نہیں ہے۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ اور ہمارے سینئر فن کار شہزاد رضا کی خواہش ہے کہ ہم سال بھر مسلسل ڈرامے پیش کریں۔‘‘

عمر شریف اور معین اختر کے ساتھ ان گنت ڈراموں میں کام کرنے والی سینئر مزاحیہ فن کارہ نعیمہ گرج کا کہنا تھا کہ جب بھی فن کار میرا تعارف کرواتے ہیں، تو نعیمہ بہن کہہ کر تعارف کرواتے ہیں۔ میں سب کی تو بہن نہیں ہُوں، کوئی تو مجھ پر بھی دل رکھتا ہوگا۔ یہ تو خیر مذاق تھا۔ ہم نے ڈراموں کا عُروج دیکھا ہے۔ شہزاد عالم بہت زمانے کے بعد منظرعام پر آئے ہیں۔ یہ ہمارے دُکھ درد کے ساتھی ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے، خوشی کی بات ہے کہ سب فن کار ایک ہو گئے ہیں، جس سے اسٹیج ڈرامے کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘‘

رؤف لالہ نے اداکاری کے ساتھ ساتھ مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے، جو کام یاب ثابت ہوئے۔ رئوف لالہ کا کہنا تھا کہ مجھے اداکاری کے ساتھ ڈراما لکھنے کا مشورہ ہمارے زبردست فن کار ذوالقرنین حیدر نے دیا تھا، آج میں اعتراف کرتا ہُوں کہ اگر کامیڈین خود ڈراما لکھے، تو زیادہ عمدہ لکھ سکتا ہے، جس کی بہترین مثال ہمارے سامنے عمر شریف اور سہیل احمد کی ہے۔ ہم نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا اور یہ کام ہم کرتے رہیں گے۔‘‘

کاشف خان کو مزاح کی دنیا میں کون نہیں جانتا! اُن کا کہنا تھا کہ آج ڈراما بنانے والے ڈراما بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اسپانسرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ڈراما سپرہٹ ہو گا، تو اس کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ ہم نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا دُنیا بھر سے منوایا ہے۔ سب سے درخواست کروں گا کہ ماضی کی طرح ڈراموں کو مقبول بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘ ڈراما’’ ہم سب بکرے ہیں‘‘ میں مہک نور، الماس، شرابیل صدیقی، شہباز صنم، عبداللہ لالہ ، شہباز ریمبو، کاشان گرج، شکیل جونیجو ، پنکی سحر، حسنین اور دیگر فن کاروں نے لاجواب مزاحیہ اداکاری کی۔ ڈرامے کے ڈائریکٹر نعمان خان تھے۔

دوسری جانب پڑوسی ملک میں دُھوم مچانے والی مزاحیہ جوڑی عرفان ملک اور علی حسن کے مزاحیہ ڈراما ’’بکرے ہوئے دیوانے‘‘ کراچی میں کام یابی سے پیش کیا گیا۔ اس مرتبہ عیدالاضحی پرآرٹس کونسل کراچی میں مزاحیہ فن کاروں کا میلہ دیکھنے کو ملا۔ ’’بکرے ہوئے دیوانے‘‘ میں ولی شیخ، شکیل شاہ، حِنا ملک، سعدیہ خان، سپنا غزل، صبا شیخ و دیگر نے قہقہوں کی بارش کی۔ اس کے ڈائریکٹر یونس میمن تھے، جو حال ہی میں کئی کام یاب ڈرامے پیش کر چکے ہیں۔ 

ڈرامے کوعلی حسن نے خُوب صورت انداز میں لکھا، یہ ڈراما دو ہفتے تک آرٹس کونسل میں کئی روز تک پیش کیا جائے گا، جس کے کئی شوز ہوں گے۔ عرفان ملک نے بتایا کہ جب بھی ہم فن کاروں کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو ہم سب مل کر شہزاد عالم کے پاس جاتے ہیں، تو ہمارے مسائل کا حل نِکل آتا ہے۔ وہ ہمارا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ عیدالاضحی پر شکیل صدیقی اور رؤف لالہ کے ساتھ ہمارا ڈراما بھی کام یاب ہوا، اور اب بھی کاب یابی کا سفر جاری و ساری ہے۔ دونوں ڈراموں سے نئے فن کاروں کو بھی روزی ملی۔ ماضی میں رئوف لالہ اور شکیل صدیقی نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ رئوف لالہ میرے لیے اسکرپٹ لکھتے ہیں، میں شکیل صدیقی کے ڈراموں سے میں آگے نِکل کرآیا۔ دُعا ہے کہ سب کے اسٹیج ڈرامے ہمیشہ کام یاب ثابت ہوں۔‘‘

ڈراما کمیٹی کے سربراہ اور سینئر فن کار شہزاد رضا کیا کہتے ہیں؟ 

شہزاد رضا نے بتایا کہ ہم نے آرٹس کونسل کراچی میں اسٹیج فن کاروں کو معیاری ڈرامے پیش کرنے کے لیے عمدہ ماحول پیدا کردیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ SOPبھی بنائے ہیں، تاکہ ڈراموں میں بہتری لائی جا سکے۔ کوئی بھی پروڈیوسر فن کاروں کا معاوضہ ادا نہیں کرے گا، تو اسے ہم بلیک لِسٹ کردیں گے۔ ڈرامے کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے کی بجائے دو گھنٹے تک محدود کر دیا ہے، تاکہ ڈراما وقت پر شروع ہو اور وقت پر ہی ختم ہو۔ 

ڈرامے کے دوران کسی قسم کی کوئی ایوارڈز تقریب نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں علیحدہ کوئی تقریب کا انعقاد کریں۔ ہم نے ماضی میں شان دار ڈرامے پیش کیے۔ اس لیے خواہش ہے پھر سے وہی کام یابی کا دور شروع ہو جائے۔ ہمارے فن کاروں میں زبردست ٹیلنٹ ہے، انہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

ڈراموں میں مقبول فن کاروں کے بچوں نے بھی کام کیا 

شکیل صدیقی، سکندر صنم، رؤف لالہ، نعیمہ گرج اور لیاقت سولجر کے بچوں نے بھی ڈراموں میں مزاحیہ پرفارمنس کاآغاز کردیا ہے۔ وہ اس مرتبہ عیدالاضحی پر بھی ایکشن میں نظر آئیں۔ ان میں شرابیل صدیقی، شہباز صنم، عبداللہ لالہ، شہباز ریمبو، کاشان گرج وغیرہ شامل ہیں۔

مہک نور، دل چسپ کردار میں !

اداکارہ مہک نور میں بے پناہ فن کارانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ بہ یک وقت کمپیئرنگ اورمزاحیہ ڈراموں میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ناقدین ڈراما کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں، جب ان کا شمار اسٹیج ڈراموں ہی کے مقبول ترین اور نمایاں فن کاروں میں شامل کیا جائے گا۔ شائقین ڈراما نے اس مرتبہ انہیں ڈراما’’ ہم سب بکرے ہیں‘‘ میں نئے اور دِل چسپ کردار میں بہت پسند کیا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید