اسلام آباد (انصار عباسی) گزشتہ سال موجودہ حکومت کے دور میں اعظم خان نے پی ایم آفس کو بتایا تھا کہ انہوں نے سائفر سابق وزیراعظم عمران خان کو دیا تھا لیکن انہوں نے یہ دستاویز واپس نہیں کی۔
پی ٹی آئی حکومت کے دوران سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے گزشتہ سال شہباز شریف حکومت نے رابطہ کیا تھا تاکہ گمشدہ سائفر کاپی کے بارے میں دریافت کیا جا سکے۔ اپنے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے سائفر عمران خان کے حوالے کر دیا تھا۔
زیر بحث سائفر کی نقول گزشتہ سال مارچ میں وزارت خارجہ کی طرف سے پانچ اہم حکام کو بھیجی گئی تھیں لیکن وزیر اعظم کے دفتر کے علاوہ باقی تمام افراد نے ضابطے کے تحت (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) ایک ماہ بعد یہ دستاویز دفتر خارجہ کو واپس کر دی تھیں۔
دی نیوز نے کئی ماہ قبل اطلاع دی تھی کہ وزیر اعظم کے دفتر کے نامزد جوائنٹ سکریٹری، جو ایسی دستاویز حاصل کرنے اور اسے وزیر اعظم کو دکھانے کے بعد اپنی محفوظ تحویل میں رکھنے کے مجاز ہیں، نے کبھی بھی سائفر کاپی حاصل نہیں کی۔
وزیراعظم آفس کی فائلوں میں اس مخصوص سائفر کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ انکوائری پر پر معلوم ہوا کہ یہ سائفر عمران خان کو ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے دیا تھا۔
وزیراعظم آفس کے پاس صرف سائفر کے تبدیل شدہ (مینی پیولیٹڈ) منٹس ہیں جس کا ذکر گزشتہ اسال عمران خان، اعظم خان، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی لیک ہونے والی آڈیو میں سامنے آیا تھا۔
دی نیوز نے خبر دی تھی کہ وزارت خارجہ نے واشنگٹن میں اپنے سفیر سے سائفر موصول ہونے کے فوراً بعد اس کی کاپیاں پانچ اہم عہدیداروں یعنی وزیراعظم، وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ وزارت خارجہ کا تھا کہ حساسیت یا اہمیت کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نوعیت کا سائفر کس کو بھیجا جائے۔ تمام متعلقہ افراد کو کاپیاں ارسال کر دی گئیں۔
وزیر اعظم کے معاملے میں، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے ایک ڈپٹی سیکرٹری کو وزارت خارجہ نے طلب کیا اور اسے یہ سائفر سر بمہر لفافے میں ڈال کر اسے فوری طور پر اعظم خان کو دینے کی ہدایت کی۔ اعظم خان کو ڈپٹی سیکرٹری نے موبائل فون کے ذریعے سیل بند لفافے کے بارے میں مطلع کیا لیکن اعظم خان نے انہیں اگلی صبح یہ لفافہ ان کے دفتر میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم کے ریکارڈ سے سائفر کاپی غائب ہونے پر موجودہ حکومت نے انکوائری کرائی جس میں اعظم خان نے بتایا تھا کہ انہوں نے سائفر کی کاپی عمران خان کو دی تھی۔ طے شدہ ایس او پیز کے تحت، اس طرح کا سائفر باضابطہ طور پر وزیر اعظم کے دفتر کے جوائنٹ سیکرٹری کو موصول ہوتا ہے۔
جوائنٹ سیکرٹری اسے وزیراعظم کو دکھاتا ہے اور پھر اسے اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔ ایک ماہ کے بعد سائفر کی کاپیاں وزارت خارجہ کو واپس کر دی جاتی ہیں، جو ان تمام دستاویزات کو اپنی محفوظ ترین الماریوں میں محفوظ رکھتی ہے۔
تاہم، اس معاملے میں سائفر وزارت خارجہ کو واپس کیا گیا اور نہ ہی وزیراعظم آفس یا اس کے متعلقہ جوائنٹ سیکریٹری کے پاس اس دستاویز کے اندراج، نقل و حرکت یا اس کے اتے پتے کے حوالے سے سرکاری ریکارڈ میں کوئی سراغ موجود ہے۔